• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ہیجڑے نکاح کیوں نہیں کرتے ؟

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اسلام میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے سے نکاح کرنے کا حکم ہے۔ براہِ کرم رہنمائی فرمائیں کہ ہیجڑوں کے لئے شادی کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ وہ بھی انسان ہیں آخر انکے بھی کچھ حقوق ہونگے۔ اس بارے میں کچھ رہنمائی فرمائیں۔ کیا علماء نے اس بارے میں کچھ رائے قائم کی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہیجڑا دو طرح کا ہوتا ہے۔ 1: ایسا مرد جس میں عورتوں کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی بلکہ صرف عادات و اطوار میں عورتوں کی طرح ہو، اسے مُخَنَّث کہتے ہیں۔2: جس میں عورتوں کی بھی علامات ہوں اور مردوں کی بھی علامات ہوں، اسے خنثی کہتے ہیں۔پہلی قسم کے ہیجڑے کا نکاح کسی عورت سے کرنا جائز ہے۔

دوسری قسم کے ہیجڑے کی پھر دو قسمیں ہیں۔  1: جس میں مرد اور عورت دونوں کی علامات ہوں لیکن کوئی ایک جانب راجح ہو، اسے خنثیٰ غیر مشکل کہتے ہیں۔ ایسے ہیجڑے میں اگر مرد کی علامات پائی جاتی ہوں مثلا اس کی داڑھی آگئی یا اسے مردوں کی طرح احتلام ہوتا ہو تو  ایسا ہیجڑا مرد کے حکم میں ہے اور اس کا بھی کسی عورت سے نکاح ہوسکتا ہے۔ اور اگر عورت کی علامات پائی جاتی ہوں مثلا اس کے عورت کی طرح پستان ابھر آئے ہوں یا اسے حیض آتا ہو تو وہ عورت کے حکم میں ہے اور اس کا کسی مرد سے نکاح ہوسکتا ہے۔

2: جس میں مر اور عورت دونوں کی علامات پائی جائیں اور دونوں یکساں ہوں اور کسی طرح کوئی ایک جانب راجح نہ ہوسکے، ایسے ہیجڑے کو خنثیٰ مشکل کہتے ہیں۔ مثلا اس کے عورت جیسے پستان بھی ابھر آئیں اور داڑھی بھی نکل آئے یا اسے حیض بھی آتا ہے اور مردوں کی طرح احتلام بھی ہوتا ہے۔ اس ہیجڑے کا نکاح کسی مرد یا عورت سے نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر وہ کسی عورت سے نکاح کرے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ خود بھی عورت ہی ہو اور اگر وہ کسی مرد سے نکاح کرے تو ہوسکتا ہے کہ وہ خود بھی مرد ہی ہو اور عورت کا عورت سے یا مرد کا مرد سے نکاح کرنا جائز نہیں۔ ایسے ہیجڑے بہت کم ہوتے ہیں، بالکل نہ ہونے کے برابر اور قانون سازی میں عمومی اور اکثر جزئیات کو سامنے رکھا جاتا ہے۔

در مختار (ج:10، ص:477) میں ہے:

كتاب الخنثى لما ذكر من غلب وجوده ذكر نادر الوجود (وهو ذو فرج وذكر أو من عرى عن الاثنين جميعا، فإن بال من الذكر فغلام، وإن بال من الفرج فأنثى وإن بال منهما فالحكم للأسبق، وإن استويا فمشكل، ولا تعتبر الكثرة) خلافا لهما، هذا قبل البلوغ (فإن بلغ وخرجت لحيته أو وصل إلى امرأة أو احتلم) كما يحتلم الرجل (فرجل وإن ظهر له ثدي أو لبن أو حاض أو حبل أو أمكن وطؤه فامرأة، وإن لم تظهر له علامة أصلا أو تعارضت العلامات فمشكل) لعدم المرجح

در مختار مع رد المحتار (ج:4، ص:67):

(هو [النكاح]) عند الفقهاء ( عقد يفيد ملك المتعة ) أي حل استمتاع الرجل من امرأة لم يمنع من نكاحها مانع شرعي فخرج الذكر والخنثى المشكل والوثنية لجواز ذكورته.. الخ

( قوله: فخرج الذكر والخنثى المشكل) أي أن إيراد العقد عليهما لا يفيد ملك استمتاع الرجل بهما لعدم محليتهما له، وكذا على الخنثى لامرأة أو لمثله، ففي البحر عن الزيلعي في كتاب الخنثى: لو زوجه أبوه أو مولاه امرأة أو رجلا لا يحكم بصحته حتى يتبين حاله أنه رجل أو امرأة فإذا ظهر أنه خلاف ما زوج به تبين أن العقد كان صحيحا، وإلا فباطل لعدم مصادفة المحل وكذا إذا زوج خنثى من خنثى آخر لا يحكم بصحة النكاح حتى يظهر أن أحدهما ذكر والآخر أنثى. ا هـ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved