- فتوی نمبر: 30-249
- تاریخ: 25 نومبر 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > جمعہ کی نماز کا بیان
استفتاء
محترم حضرت مفتی صاحب:ہم اپنی مسجد میں نماز جمعہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور ہم صحت جمعہ کی شرائط کے متعلق
پوچھنا چاہتے ہیں آیا ہماری مسجد میں نماز جمعہ ادا کر نا جائز ہے یا نہیں؟
ہماری مسجد ہنجرائے کلاں کی حدود میں واقع ہےاور ہنجرائے کلاں کی آبادی 25سے30ہزار ہےاور اس میں روز مرہ کی تمام ضروریات ملتی ہیں بازار،مارکیٹ،سکول،ڈسپنسری،پنچایت کا نظام وغیرہ بھی موجود ہےہماری مسجد اس قصبہ کی آبادی سےتقریبا سوا ایک یا ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پرقصبہ مذکور کی حدود کے اندر واقع ہےاور درمیان میں ہر دو سو ،تین سو،چارسو میٹر کے فاصلے پرکوئی نہ کوئی گھر موجوددہےقصبہ کی عید گاہ اس مسجد سے تقریبا آٹھ سومیٹر کے فاصلے پر ہےاور تقریبا اتنا ہی فاصلہ قصبہ سے قصبہ کے قبرستان کا ہے۔
آیا ہماری مسجد میں جمعہ کی نمازادا کرنا درست ہے یا نہیں؟
وضاحت مطلوب ہے:1۔جس آبادی میں جمعہ شروع کرنا چاہ رہے ہیں وہ اور ہنجرائے کلاں ایک آبادی شمار ہوتی ہے یا الگ الگ آبادی شمار ہوتی ہےاور دونوں کے نام بھی الگ الگ ہیں یا دونوں کا ایک ہی نام ہے؟2۔مذکورہ جگہ کی اپنی آبادی کتنی ہے؟بالغ مرد کتنے ہیں؟3۔وہاں پر کیا کیا سہولیات ہیں؟4۔جس جگہ جمعہ شروع کرنا چاہ رہے ہیں وہاں کتنی مسجدیں ہیں؟5۔وہاں جمعہ کیوں شروع کرناچاہ رہے ہیں؟
جواب وضاحت:1۔جس جگہ جمعہ شروع کرنا چاہ رہے ہیں وہ جگہ اور ہنجرائے کلاں ایک ہی آبادی شمار ہوتی ہےاس جگہ کا اپنا کوئی نام نہیں ہے بلکہ وہ جگہ ہنجرائے کلاں کی حدود میں آتی ہے۔2۔مذکورہ جگہ میں مسجد کے آس پاس تقریبا 7/8گھر ہیں۔3۔سہولیات مسجد کے آس پاس نہیں ہیں البتہ ہنجرائے کلاں میں روز مرہ کی تمام سہولیات موجود ہیں۔4۔ایک ہی مسجد ہےالبتہ نصف کلو میٹر دائیں بائیں مسجدیں ہیں لیکن وہ تمام بریلوی مسلک کی ہیں۔5۔جمعہ اس لیے شروع کررہے ہیں کہ اس مسجد سے آگے تقریبا شمال کی طرف ہنجرائے کلاں سے ایک الگ گاؤں ہےجس میں 100گھر ہیں وہاں شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سےجمعہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس گاؤں والوں کو دوسرے گاؤں جانا پڑتا ہےیہ مسجد قریب ہے اور دیوبند مسلک کی ہےاور یہ مسجد ہم نے بنائی ہی اس لیے تھی کہ اس میں ہم جمعہ شروع کریں گےاور نماز جمعہ میں تقریبا 40/50لوگ ہوتے ہیں کبھی اس سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ مسجد میں جمعہ کی نمازادا کرنا درست نہیں ۔
توجیہ:جمعہ صحیح ہونے کےلیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس جگہ جمعہ کی نماز ادا کی جائےوہ جگہ خود شہر یا بڑا قصبہ ہو یا بڑے قصبے کی فناء ہو،فناء سے مراد وہ جگہ ہے جو شہر یا قصبے کی ضروریات کےلیے تیار کی گئی ہو جیسے قبرستان،عید گاہ ،سرکاری سکول یا ہسپتال وغیرہ وغیرہ اور مذکورہ مسجد نہ مذکورہ قصبہ میں داخل ہےکیونکہ مذکورہ مسجد قصبہ مذکور کی آبادی سے بقدر غلوہ (137 میٹر) سے کافی فاصلے پر واقع ہے اور درمیان میں زرعی زمینیں بھی ہیں اور نہ ہی اس کے فناء میں داخل ہے لہذا اس میں جمعہ کی نماز ادا کرنا درست نہیں۔
شامی (3/6تا9)میں ہے:
فى الدر المختار:(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر)…(او فناءه)….(وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجى.
وفى رد المحتار: (قوله والمختار للفتوى إلخ) اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة وكذا محرر المذهب الإمام محمد وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة ميل ميلان ثلاثة فرسخ فرسخان ثلاثة سماع الصوت سماع الأذان والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره………. فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار اهـ.
رالمحتار(3/6) میں ہے:
والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح.
بدائع الصنائع(1/585)میں ہے:
وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.
کفایت المفتی (3/249)میں ہے:
جمعہ کے مسئلے میں شہر سے مراد ایسی بستی ہے جہاں ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہوں تھانہ یا تحصیل اور ڈاکخانہ ہو کوئی عالم یعنی مسائل ضروریہ بتانے والا اور کوئی معالج موجود ہو ۔
امداد الفتاوی جدید(3/164)میں ہے:
فناء مصر کی تعریف یہ ہے کہ جس موضع سے مصر کے باشندوں کے مصالح واغراض متعلق ہوں کسی مقدار اور مسافت کی تحدید نہیں ہے۔ علامہ شامیؒ فرماتے ہیں :
والتعريف أحسن من التحديد؛ لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر، وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره بيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر؛ لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منها على فراسخ من كل جانب نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدقا عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المعركة وكركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك.
کفایت المفتی (3/2259میں ہے:
سوال: بڑا گاؤں جس کو اہل علاقہ یعنی اس کے گرد و نواح والے بڑا گاؤں جانتے ہیں اور آبادی اس کی اس وقت ۱۲۵۴ آدمی شمار میں آئی ہے ایک مدرسہ اور کئی مسجدیں بھی اس گاؤں میں ہیں آیا ایسے گاؤں میں عند الفقہا جمعہ و عیدین جائز ہے یا نہیں ؟ بینوا تو جروا ۔
جواب :دیہات میں جمعہ پڑھنا فقہائے حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں کیونکہ منجملہ شرائط صحت جمعہ کے مصر جامع یا فناء مصر ہے اور مصر جامع وہ جگہ ہے جس میں بازار ‘ سڑکیں اور ایسا حاکم موجود ہو جو غلبہ کے اعتبار سے ظالم سے مظلوم کا انصاف لے سکے…….. پس جو مقام کہ خود مصر ہو یا توابع مصر سے ہو اس میں جمعہ جائز ہے اور جو مقام ایسا نہیں ہے اس میں جمعہ جائز اور صحیح نہیں ہے توابع مصر وہی جگہ ہوسکتی ہے جس سے مصر کے تعلقات وابستہ ہوں اور ضروریات مصر وہاں سے بہم پہنچائی جاتی ہوں ان دو جگہوں کے علاوہ کسی اور جگہ کے باشندوں پر جمعہ فرض بھی نہیں اور نہ ان کے ادا کرنے سے ادا ہوگا ہندوستان میں جمعہ صرف ان جگہوں میں جائز ہے جہاں کوئی حاکم مجاز رہتا ہو کسی ایسی بستی میں جہاں کوئی حاکم مجاز نہ ہو جمعہ صحیح نہیں اور نہ وہاں کے باشندوں پر جمعہ فرض ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved