• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ہاسٹل میں پیشگی رقم جمع کروانے کا حکم

استفتاء

ایک صاحب طالبعلم ہیں جو ایک ہاسٹل میں رہتے  ہیں   اور کھانے کے پیسے ابتداء جمع کرواتے ہیں   جوکہ متعین ہوتے ہیں بعد میں اگر وہ کسی دن ہاسٹل سے کھانا نہ کھائیں(1)تو کیا وہ  اپنی دی ہوئی  رقم میں سے  کچھ کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟ (2)اسی طرح کیا وہ کسی دن ڈبل کھانا کھائیں مثلا کوئی مہمان آجاتا ہے ایک کھانا خود اور ایک مہمان کو کھلائیں تو  ان کے لئے جائز ہوگا یا نہیں؟ اگر جائز ہوگا تو کیا انکو مزید کچھ  رقم جمع کروانی ہوگی یا بس پہلے دی ہوئی  رقم کافی ہے؟

(3)ہاسٹل والوں کا ابتداء کھانے کی فیس لینا جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہاسٹل میں  رہنے والے حضرات کسی وجہ سے ہاسٹل سے کھانا نہیں کھاتے مثلا کوئی  گھر چلا جاتا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: 1۔ کیا ہاسٹل کا شیڈول طے ہوتا ہے کس دن کس وقت کیا پکے گا یا ان کی مرضی ہوتی ہے؟ 2۔ نہ کھانے یا مہمان  کو کھلانے کی صورت میں ہاسٹل والوں کا کوئی ضابطہ طے ہے؟

جواب وضاحت: کھانے کی متعین فیس ہوتی ہے مہینہ بھر ہاسٹل والے اپنی مرضی سے کھانا کھلاتے ہیں۔کھانے کی فیس دینے کے بعد کھانا نہ کھانا برابر ہے مہمان کو کھلانے کے حوالے سے پالیسی کوئی واضح نہیں البتہ مہمان چونکہ اتفاقاً آتا ہے اس لیے  ان کو ناگوار نہیں ہوتا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) نہیں کرسکتے ۔

(2)اگر  ہاسٹل والوں کو معلوم ہونے کے باوجود واقعۃً  ناگوار نہیں گذرتا اور وہ منع نہیں کرتے تو  جائز ہے اس کے لیے مزید پیسے جمع کروانے کی ضرورت نہیں ورنہ بغیر مزید پیسے جمع کرائے جائز نہیں۔

(3) جائز ہے۔

توجیہ : مذکورہ صورت کی اصل استصناع کی بنے گی یعنی طلباء ہاسٹل والوں سے  بطور استصناع کے معاملہ کرتے ہیں کہ ان پیسوں کے بدلے ہمیں مہینہ بھر کھانا بنا کر دینا ہے ۔مذکورہ صورت میں اگرچہ حتمی طور پر یہ طے نہیں ہوتا کہ کس دن اور کس وقت کیا بنے گا لیکن چونکہ عرفا  شیڈول کسی درجہ میں معلوم ہی ہوتا ہے اور طلباء کا اس پر اشکال  بھی نہیں ہوتا لہذا یہ جہالت مفسد نہیں بنے گی نیز جس صورت میں ہاسٹل والے کھانا بنا کر دے دیں اور طالب علم وہ کھانا نہ کھائے تو چونکہ ہاسٹل والوں نے روٹین کے مطابق اپنا کام پورا کردیا ہے،آگے اس طالبعلم کا مسئلہ ہے کہ اس نے وہ  کھانا نہیں کھایا لہذا  وہ ہاسٹل والوں سے پیسوں کی واپسی کا تقاضہ نہیں کرسکتا  ۔

بدائع الصنائع (5/2) میں ہے:

اما صورة ‌الاستصناع ………. هو عقد ‌على ‌مبيع ‌في ‌الذمة شرط فيه العمل»

المبسوط للسرخسی (15/ 164) میں ہے:

ولأن ‌هذه ‌الجهالة ‌لا ‌تفضي إلى المنازعة بينهما، والجهالة بعينها لا تفسد العقد فكل جهالة لا تفضي إلى المنازعة فهي لا تؤثر في العقد

كشف الأسرار عن أصول فخر الإسلام البزدوی (2/ 213) میں ہے:

أن ‌هذه ‌الجهالة ‌لا ‌تفضي ‌إلى ‌المنازعة لأنهم لا يمنعون الظئر في العادة كفايتها من الطعام لعود منفعته إلى ولدهم، وكذلك لا يمنعونها كفايتها من الكسوة لكون ولدهم في حجرها فصار كبيع قفيز من صبرة

شامی  (6/ 53) میں ہے:

«أن العادة لما جرت بالتوسعة على ‌الظئر شفقة على الولد لم تكن الجهالة مفضية إلى النزاع، والجهالة ليست بمانعة لذاتها بل لكونها مفضية إلى النزاع»

الاختيار لتعليل المختار (2/ 59)میں ہے:

«أن ‌هذه ‌الجهالة لا تفضي إلى المنازعة، لأن العادة جرت بالتوسعة على الأظآر وعدم المماكسة معهن، وإعطائهن شهواتهن شفقة على الأولاد»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved