- فتوی نمبر: 19-307
- تاریخ: 24 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > کمپنی و بینک
استفتاء
HPکی طرف سے زکوۃ کی ادائیگی مدارس یا بعض رشتے داروں کو کی جاتی ہے، رشتے داروں میں تایا کے بیٹے، چچا کے بیٹے اور کوئی رشتہ دار ملازم جس کی تنخواہ کم ہو اس کو بھی تنخواہ کے علاوہ زکوۃ کی رقم دی جاتی ہے اور رشتہ داروں کو دوائی خرید کر زکوۃ کی مد میں دے دی جاتی ہے۔ HPکی طرف سے ٹرسٹ و ہسپتال وغیرہ کو زکوۃ نہیں دی جاتی ۔
کیا زکوۃ کی ادائیگی کا مذکورہ طریقہ کار شرعاً درست ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مدارس کو یا مذکو رہ رشتہ داروں یعنی تائے، چچے کے بیٹوں کو یا رشتہ دار ملازم کو زکوۃ دینا یا زکوۃ کی رقم سے ان کو دوائی خرید کر دینا درست ہے۔بشرطیکہ مذکورہ رشتہ دار مستحق زکوۃ ہوں اور زکوۃ کی رقم کو ملازم کی تنخواہ میں شمار نہ کیا جائے۔ نیز رشتہ داروں میں سے اصول (والدین، والدین کے والدین دادا، دادی، نانا، نانی الخ) اور فروع (اولاد، اولاد کی اولاد پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی الخ) کو زکوۃ دینا جائز نہیں، اسی طرح میاں بیوی بھی آپس میں ایک دوسرے کی اپنی زکوۃ نہیں لے سکتے۔
(۱) البحرالرائق: (۲/۳۱۹) میں ہے:
وأشار إلي أن الدفع إلي کل قريب ليس بأصل ولا فرع جائز، و هو مقيد بما في ’’الولوالجية‘‘: رجل يعول أخته، أو أخاه، أو عمه، فأراد أن يعطيه الزکوة فإن لم يفرض القاضي عليه النفقة جاز لأن التمليک بصفة القربة يتحقق من کل وجه وإن فرض عليه النفقة لزمانته إن لم يحتسب من نفقتهم جاز، وإن کان يحتسب لايجوز لأن هذا أداء الواجب عن واجب آخر۔
(۲) و فی الدر المختار: (۳/۳۳۳) میں ہے:
"مصرف الزکوة والعشر،…( هو فقير،وهو من له ادني شئي) أي دون نصاب ،او قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة (ومسکين من لا شيء له) علي المذهب۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved