• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حجامت کی اجرت

استفتاء

اگر کوئی شخص سنت علاج الحجامہ (پچھنے لگانا ) کرتا ہے اور اس علاج کرنے پر کچھ معاوضہ بھی وصول کرتا ہے اور بعض مستحق مریضوں کا علاج  فی سبیل اللہ بھی کر دیتا ہے۔ اب اس پر دو سوال پوچھنے ہیں:

۱۔ یہ معاوضہ لینا جائز ہے؟ اور اگر جائز ہے تو  ۲۔ کس حد تک لینا جائز ہے؟ جبکہ اس میں بہت سی اشیاء استعمال ہوتی ہیں۔ جس کا خرچہ لا محالہ ہے۔ جواب اپنے پیڈ پر  تحریر فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔حجامہ کا معاوضہ لینا درست ہے۔

(جاز أجرة الحمام والحجام ) لأنه عليه السلام احتجم و أعطى الحجام أجرته. ( شامی: 2/ 52 )

2۔  باہمی رضامندی سے جو بھی اجرت طے ہوجائے درست ہے، البتہ انسانی ہمدردی کو پیش نظر رکھا جائے۔

عن أنس رضي الله عنه قال: غلا السعر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا يا رسول الله سعر لنا فقال  إن الله هو المستعر القابض الباسط الرازق و إني لأرجوا أن ألقى ربي و ليس أحد منكم يطلبني  بمظلمة في دم…

فتاوى عثمانی میں  مذکور ہے:

و في حاشية السندي على ابن ماجه (4/ 422) و فيه إشارة إلى أن التسعير تصرف في أموال الناس بغير إذن أهلها فيكون ظلماً فليس للإمام أن يسعر لكن يأمرهم بالانصاف و الشفقة على الخلق و النصيحة. 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved