- فتوی نمبر: 23-224
- تاریخ: 29 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
زید گاڑی کا ڈرائیور ہے گاڑی کا سرکاری کرایہ 20 روپے ہے ڈرائیور 30 روپے لیتا ہے سواریاں بھی 30 روپے دیتی ہیں کیازید کو 20روپے لینے چاہئیں ؟جبکہ سوا ریاں خود30 روپے دے رہی ہیں سرکاری کرایہ 20 روپے ہے تو زید کو اس سے اوپر کتنا منافع لینا چاہیے جی میرا مسئلہ ذاتی بھی ہے اور اجتماعی بھی ہے ہمارے روٹ میں سب گاڑیوں والے 30 روپے کرایہ لیتے ہیں جبکہ کرایہ 20روپے درج ہے مجھے 30 روپے لینے چاہئیں یا 20 روپے جبکہ عوام خود 30 روپے دے رہی ہے میں نے علماء سے پوچھا ہے کچھ کہہ رہے ہیں کہ 30روپے لے سکتے ہیں جبکہ کچھ کہہ رہے ہیں کہ نہیں لے سکتے جب کہ عوام دے رہی ہے اور سب روٹ والے لے رہے ہیں آپ مجھے فتوی دیں تاکہ میرا دل مطمئن ہوجائے اور ذہنی طور پر پرسکون رہ سکوں اور کام کا آغاز کر سکوں ۔
وضاحت مطلوب ہے:30 روپیے کرایہ لینے کی کیا وجہ ہے؟
جواب وضاحت :عام طور پر گاڑی مالک کی ہوتی ہے ڈرائیور کو روز کے پیسے ملتے ہیں پٹرول ہر مہینے اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے جبکہ سرکاری کرایہ سال میں ایک دفعہ یا دو سال بعد نیا طے ہوتا ہےاگر کرایہ 20 روپے لیں تو مالک کو پٹرول اور باقی اڈےکے اخراجات ملاکر روز کی مزدوری پوری نہیں ہوتی مطلب کے پھر خود کو سو کے بجائے 70 روپے بچت ہوگی اڈے کی سب گاڑیاں 30 روپے لیتی ہیں اس صورت میں ان کے ساتھ چلنا پڑتا ہے سواریاں بھی خود 30 روپے دینے لگتی ہیں جبکہ کرایہ 20 روپے مقرر ہے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ کو اور اس روٹ کی دیگر گاڑی والوں کو سرکاری ریٹ سے زیادہ کرایہ نہیں لینا چاہیے باقی رہی یہ بات کہ عوام خود سرکاری ریٹ سے زائد کرایہ دیتی ہے تو یہ بامرمجبوری دیتی ہے۔
نوٹ :سرکاری ریٹ کے مطابق کرایہ لینے سے گاڑی والے کواخراجات نکال کر یومیہ اوسطا کتنی بچت ہوتی ہے اس کی تفصیل سامنے آنے پر جواب میں دوبارہ غورکیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved