- فتوی نمبر: 13-35
- تاریخ: 25 اپریل 2019
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ پنجاب گورنمنٹ سرونٹ ہائوسنگ فائونڈیشن اپنے ملازمین کو ریٹائر منٹ کے بعد پلاٹ الاٹ کرتی ہے اس میں سے کئی ممبر ضرورت کی وجہ سے اپنی ممبر شپ کے حقوق سیل کردیتے ہیں یہ خریدنا جائز ہے یا نہیں ؟ ممبر شپ کے حقوق سے مراد وہ فائل فروخت کرنا ہے جس میں سارا معاہدہ ہوتا ہے (وضاحت ازسائل )
جس کو ممبر شپ ملی ہو اس کو پلاٹ ضرور الاٹ ہوتا ہے اور وہ اپنی تنخواہ میں سے کٹوتی کرواتا ہے ۔باقی ڈیمانڈ نوٹس کے پیسے جو اس ممبر شپ کو خریدتا ہے اس کے ذمے ہوتے ہیں جو جمع کروا کر پلاٹ الاٹ ہوتا ہے ۔ہم کسی انویسٹر کواگریہ فائل خرید کر دلوائیں تو سارا کا م ہمارے ذمے میں ہوتا ہے خریدنا ،الاٹ کروانا ،ٹرانسفر کروانا ،اس کی تصدیق کروانا اور جب پلاٹ الاٹ ہو جائے تو تمام اخراجات کے بعد جو نفع ہو اس میں سے دو حصے نفع اس کا اور ایک حصہ کام کروانے والے کاہوتا ہے ۔کیا یہ شریعت کے مطابق ٹھیک ہے ؟وضاحت فرمائیں ۔
وضاحت مطلوب ہے:
۱۔ کیاگورنمنٹ کی طرف سے یہ پلاٹ ملنے سے پہلے آگے بیچنے کی اجازت ہوتی ہے ؟
۲۔ جب کوئی اسکیم کا رکن بنتا ہے تو پلاٹ نمبر اسی وقت الاٹ ہو جاتا ہے ؟
جواب وضاحت :
۱۔ اجازت ہوتی ہے۔
۲۔ گورنمنٹ ممبر شپ لینے کے بعد ریٹائر منٹ پر الاٹ کرتی ہے ۔
مزیدوضاحت
۱۔ اس اسکیم کی ترتیب یوں تھی کہ حکومت نے کچھ سال پہلے جب اسکیم کااعلان کیا تھا تو لوگوں نے اس کے فارم لے کر جمع کروائے تھے پھر قرعہ اندازی میں جن کانام نکلاتھا ان کو ممبر شب کا رڈ جاری کردیا تھا بس یہی ثبوت ہوتا ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جن ممبروں کی ریٹائر ڈ منٹ ہو گئی ہیں وہ زیادہ ہیں حکومت کے پاس سوسائٹیاں زیادہ نہیں ہیں حکومت مختلف جگہوں پر مختلف شہروں میں وقتافوقتا سوسائٹیاں بناتی رہتی ہے۔
۲۔ گورنمنٹ کے پاس اپنی(سرکاری )زمینیں ہر شہر میں ہوتی ہیں اس پر اسکیمیں بناتی ہیں ۔
۳۔ ہم صرف اس کی فائل بکواتے ہیں جو ریٹائر ہو چکے ہوں اور گورنمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق ہمیں امیدہو کہ اس کا فلاں اسکیم میں پلاٹ نکل آئے گا۔
۴۔ گورنمنٹ جو رقم ممبروں سے لیتی ہے وہ زمین کی قیمت کے طور پر نہیں بلکہ ڈویلپمنٹ چارجز کے نام پر ستر ،یا اسی ہزار روپے فی مرلہ مختلف شہروں کے حساب سے لیتی ہے۔
۵۔ اگر اب ناجائز ہے تو کیا مثلا جو لوگ 2005سے 2009تک ریٹائر ہوئے تھے وہ مثلا تین ہزار تھے اور اب گورنمنٹ کے پاس چارہزار پلاٹ موجود ہیں تو ان تین ہزار کے حساب سے تو کنفرم پلاٹ ملیں گے تو کیا ان کی فائلیں خریدنا اور بکوانا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ممبر اور حکومت کے باہمی معاملہ کو چاہے ہبہ بنائیں ( کہ یہ اصلاہبہ ہے اور ستر ہزار فی مرلہ ڈویلپمنٹ چارجز ہیں )یا بیع بنائیں ( کہ لی جانی والی رقم قیمت ہے) دونوں صورتوں میں عقد کے وقت چونکہ نہ شہر متعین تھا کہ کس شہر میں ممبر کو پلاٹ ملے گا نہ جگہ متعین تھی اس لیے مذکورہ صورت میں جب تک حکومت کی طرف سے پلاٹ الاٹ نہ ہو جائے ممبر کی ملکیت میں پلاٹ نہیں آتا لہذا ممبر کے لیے اس کو بیچنادرست نہیں اور آپ کے لیے اس کو بکوانا درست نہیں ہے ۔
اور سائل کا یہ کہنا کہ ہم صرف اس کے پلاٹ کو بکواتے ہیں جو ریٹائر ہو چکا ہو اور اس کے بارے میں ہمیں امید ہو کہ اس کا فلاں اسکیم میں پلاٹ نکل آئے گا اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ محض ریٹائر ہونے سے ملکیت نہیں آتی جب تک کہ وہ پلاٹ اس کے نام الاٹ نہ ہوجائے ۔
نوٹ: مذکورہ بالاصورت نزول عن الوظائف یا حق کی بیع یا صک کی بیع پر بھی محمول نہیں ہو سکتی ۔
کمافي تکملۃفتح الملهم،رقم الحديث:235/1
حقوق استيفاء المال وهي الحقوق التي تثبت لصاحبها بعقود يعقد ها هو او غيره مثل رجل باع شيئا فثبت له حق استيفاء الثمن او اقرض احد ا فثبت له حق استيفاء الدين اواعلنت الحکومۃ له بجائزۃ فثبت له حق استيفائها فبيع مثل هذه الحقوق ليس بيعا للحقوق في الحقيقۃ وانما هو بيع لمال يتعلق به ذلک الحق وانه لا بجوز عندالحنفيۃؒ لکونه بيع الدين من غير من عليه الدين او لکونه بيع ماليس عند الانسان ويدخل في هذاالقسم بيع العطايا والارزاق و البراء ات وبيع حظوظ الائمۃ وبيع الجامکيۃ کما حققه الشامي في رد المحتار ومأخذ هذاالحکم احاديث النهي عن البيع قبل القبض وآثار في النهي عن بيع الصکاک کما في قضيۃ ابي هريرۃ ؓ في حديث الباب
© Copyright 2024, All Rights Reserved