- فتوی نمبر: 24-199
- تاریخ: 24 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
اگر کسی آدمی کی حکومت کی ساتھ جان پہچان ہو اور وہ لوگوں کے مسائل حکومت کی سطح پر حل کرتا ہے تو کیا اگر وہ شخص ان لوگوں سے وقت کے صرف کا پیسہ لیتا ہو تو کیا یہ جائزہے یا ناجائز ۔ مثلاً کسی علاقے سے حکومت نے لوگوں کو نکال دیا ہے، اب اسی خالی شدہ علاقہ میں حکومت کسی کو نہیں چھوڑتی ہے لیکن مذکورہ بالا شخص ان لوگوں سے کوئی چیز لے کر حکومت سے ان لوگوں کے لیے اجازت طلب کرے تو کیا یہ صورت جائز ہے۔
تنقیح :وہ شخص حکومت کا ملازم نہیں ہے البتہ ا س کے تعلقات حکومت سے ہیں ۔ اور لوگوں سے پیسے وغیرہ لینے کی یہ صورت ہوتی ہے کہ کبھی تو پہلے سے طے ہوجاتا ہے کہ اتنے پیسے دو اور کبھی یہ کہہ دیتا ہے کہ اپنی خوشی سے کچھ نہ کچھ دے دینا نیز اسے اس کے لیے باقاعدہ کوئی کام نہیں کرنا پڑتا صرف سفارش کرنی پڑتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اس شخص کے لیے محض سفارش کرنے پر ان لوگوں سے کوئی چیز لینا جائز نہیں ہے کیونکہ صرف سفارش کرنا کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر سفارش کرنے والا کوئی اجرت لے سکے البتہ اگر اس شخص کواس کے لیے باقاعدہ کوئی کام کرنا پڑے تو پھر اجرت لینا جائز ہے بشرطیکہ پہلے سے اجرت متعین طور پر طے کرلے ۔
نوٹ: یہ مسئلہ لینے والے کے اعتبار سے ہے اور دینے والوں کی اگر مجبوری ہو تو ان کے لیے دینا جائز ہے۔
محیط(8/453) میں ہے:
.ونوع منها: أن يهدي الرجل إلى رجل مالاً ليسوي أمره فيما بينه وبين السلطان، ويعفه في حاجته، وإنه على وجهين:الأول: أن تكون حاجته حراماً، وفي هذا الوجه لا يحل للمعطي الإهداء، ولا للمهدى إليه الأخذ، لأن المهدي يعطي ليتوصّل به إلى الحرام، والمهدى إليه يأخذ ليعينه على الحرام.الثاني: أن تكون حاجته مباحاً، وإنه على وجهين أيضاً:الأول: أن يشترط أنه إنما يهدي إليه ليعينه عند السلطان، وفي هذا الوجه لا يحل للآخذ الأخذ، لأن القيام بمعونة المسلمين واجب بدون المال، فهذا مما أخذ لإقامة ما هو واجب عليه، فلا يحل.وهل يحلّ للمعطي الإعطاء؟ تكلموا فيه، منهم من قال: لا يحل؛ لأن هذا تمكين من القبض الذي هو حرام، ومنهم من قال: يحل؛ لأن غرضه دفع الظلم عن نفسه، وعلى قياس قول الخصاف يجب أن يكون حل الإعطاء معلقاً بالرجاء، على ما بيّنا والحيلة في حل الأخذ، وفي حل الإعطاء عند الكل أن يستأجره صاحب الحادثة يوماً، إلى الليل ليقوم بعمله بالمال الذي يريد الدفع إليه فتصح الإجارة ويستحق الأجير الأجر، ثم المستأجر بالخيار إن شاء استعمله في هذا العمل، وإن شاء استعمله في عمل آخر، قالوا: وهذه الحيلة إنما يصلح إذا كان العمل الذي أستأجره عليه عملاً يصلح الاستئجار عليه
درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام(4/536) میں ہے:
والرشوة تقسم إلى أربعة أقسام… 3 – لو كان لأحد أمر محق فيه عند وال فأدى أحد الأشخاص غير الموظفين مالا ليقوم له بإتمام ذلك الأمر فيحل دفع ذلك وأخذه ; لأنه وإن كانت معاونة الإنسان للآخر بدون مال , واجبة فأخذ المال مقابل المعاونة لم يكن إلا بمثابة أجرة ( الولوالجية بتغيير يسير ) .
امداد الفتاوی(3/341) میں ہے:
سوال(۲۹۲) رسالہ الامداد میں ونیز پارسال رمضان میں میرے سامنے یہ امر قرار پایا تھا کہ اصل وکالت جائز ہے کہ وہ طاعت مختص بالمسلم نہیں اور اجرت لینا فقہاء نے طاعت مختص بالمسلم پر حرام لکھا ہے اس لئے وکالت کی اجرت حلال ہے، اس بنا پر تو شفاعت وغیرہ پر اجرت لینا بھی حلال معلوم ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی مختص بالمسلم نہیں، کیونکہ وکالت جس طرح طاعت لغیرہ ہے اس طرح شفاعت بھی تو طاعت لغیرہ ہے۔
الجواب: وجہ منع صرف اجرت علی الطاعۃ میں منحصر نہیں یہ بھی احدالوجوہ ہے، دوسری وجہ منع کی اس عمل کا غیر متقوم عندالشرع ہونا ہے، جیسا فقہاء نے اجارۃ الاشجار لتجفیف الثیاب کو منع کہا ہے، پس شفاعت بھی شرعاً غیر متقوم ہے، لانه لم ينقل تقومه، و تقوم المنافع بغير القياس فما لم ينقل لا يجوز القول بتقومه و ايضاً فلا تعب فى الشفاعة و لا يعطون الاجر عليها من حيث انه عمل فيه مشقة بل من انها مؤثر ة بالوجاهة و الوجاهة وصف غير متقوم فجعلوا اخذ الاجر عليها رشوةً و سحتاً والله اعلم
احسن الفتاوی (8/97) ميں ہے:
۵) دفع مضرت یا جلب منفعت کے لئے درمیان میں واسطہ بننے والے یعنی صرف سفارش کرنے والے کو رشوت دینا جائز ہے۔ آخذ کے لئے لینا جائز نہیں، البتہ اگر درمیانی واسطہ کے ذمہ کوئی کام لگایا جائے تو اس کے لیے اس کام کی اجرت لینا جائز ہے بشرطیکہ وہ یہ کام کرنے پر بنفس خود قادر ہو، قدرت بقدرت غیر کا اعتبار نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved