• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حرمت مصاہرت کی ایک صورت

استفتاء

کافی عرصہ پہلے علماء کے بیانات اور کتب سے حرمت مصاہرت کا مسئلہ معلوم ہوا کہ باپ بیٹی،ماں بیٹا ، ساس داماد، سسر بہو وغیرہ سے احتیاط رکھی جائے تب سے ہم میاں بیوی ان رشتوں سے احتیاط برتنے لگے ہیں۔شوہر تو دو سال کی بیٹی تک سے احتیاط کرنے لگے اور اپنی ساس سے ملاقات کے وقت بھی بیڈ پر ہی بیٹھے بیٹھے سلام کرتے ہیں کہ وہ ان کے سر پر ہاتھ نہ پھیر دیں اور ساس کو موٹر سائیکل پر بٹھاتے ہیں تو درمیان ميں اپنے بچے کو بٹھاتے ہیں۔بیٹی اب ماشاءاللہ ساڑھے آٹھ سال کی ہے لیکن دو سال کی عمر سے ہی شوہر اس سے دور دور رہتے ہیں اسے پیار نہیں کرتے نہ ہی سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں،نہ ہی گود میں اٹھاتے ہیں ۔بیٹی سے جسمانی خدمت جیسے پاؤں وغیرہ دبانا نہیں لیتے۔بیٹی کو اپنے ساتھ کم سے کم بائیک پر بٹھاتے ہیں کبھی بٹھانا ہو تو وہ خود کو دوران سفر حالت جنگ میں محسوس کرتے ہیں اور گھر پہنچ کر  سکون کرتے ہیں۔ہمارے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔سب سے چھوٹی ہونے اور ایک ہی کمرے میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے میں،شوہر اور بچی ایک ہی بیڈ پر سوتے ہیں مگر  سوتے ہوئے بھی شوہر اور میں خیال رکھتے ہیں کہ بیٹی شوہر سے چھو نہ جائے،کبھی غلطی سے شوہر کا ہاتھ یا پاؤں وغیرہ بیٹی سے لگ جائےتو وہ گھبرا جاتے ہیں بچی اب سمجھدار ہو رہی ہے وہ  اس سلوک سے نفسیاتی ہو رہی ہے اکثر سوال کرتی ہے کہ ابا جان مجھ سے دور دور کیوں رہتے ہیں؟شوہر کی احتیاط کی فکر اس حد تک بڑھ گئی  ہے کہ وہ مستقبل میں اگر اللہ نے بیٹی کی رحمت سے نوازا  تو وہ نومولود تک کو چھونے یا گود میں لینے سےہی  خوفزدہ رہیں گے ۔واضح رہے کہ میں اور شوہر جانتے ہیں کہ بیٹی سے احتیاط کی عمر نو سال سے شروع ہوتی ہے مگر ہم تو اپنی نابالغ بچی سے اتنی احتیاط رکھتے ہیں تاکہ ہمارا نکاح سلامت رہےتو اب جب بچی قریب البلوغ ہے تب ہم کیسے زندگی گزاریں گےکہ احتیاط بھی رہے اور میرا اپنے بیٹوں سے اور شوہر کا بیٹی سے محبت، شفقت،قرب،احساس بھرے لمس وغیرہ کا مہذبانہ تعلق بھی رہے جس  کی بچوں کو بےپناہ ضرورت ہوتی ہےکیونکہ ہر گھر میں باپ بچیوں کو گود میں لیتے ہیں،بوسے دیتے ہیں انگلی پکڑ کر باہر لے جاتے ہیں،بالغ بیٹیوں کو مدرسے،سکول،کالج چھوڑتے ہیں ،ڈاکٹر  کے پاس لے جاتے ہیں ،میکے سے سسرال یا سسرال سے میکے لے جاتے ہیں،بچیوں کے ہاتھ سے نواسے یا نواسیوں کو پکڑتے ہیں،ملاقات ہونے پر سر پر ہاتھ پھیرنا ،سر کا بوسہ لینا،کندھے پر ہاتھ رکھ کر ملنا وغیرہ یہ سب تو عام باتیں ہیں ان سب  میں لمس تو محسوس ہوتا ہی ہے اسی طرح ماں کے اپنے بیٹوں کے ساتھ بھی یہی معاملات ہوتے ہیں مگر ہم میاں بیوی ایسے موقعوں پر بہت احتیاط اور ہراساں رہتے ہیں ۔

(۱)چند وجوہات کی بناء پر ہم دونوں بیٹوں کی چھوٹی عمر میں ختنہ نہیں کرواسکے تھے پچھلے ماہ جون2021میں  بڑے بیٹے جس کی عمر 17سال ہے اور چھوٹے بیٹے   جس کی عمر 12سال ہے دونوں کی ایک ساتھ ختنہ کروائی بڑے ہونے کی وجہ سے دونوں پر الگ الگ کپڑا ڈالنا ہوتا تھا اور ان کا خیال کرنا ہوتا تھا،مکمل  لحاظ اور احتیاط  کے باوجود دونوں بیٹوں کی شرم گاہ پر میری نظر پڑتی تھی اس بات پر بھی ہم پریشان ہیں ۔

(2)دو دن پہلے میرے شوہر مجھ سے ناراض ہو گئے اور بات چیت بند کردی دوپہر کو وہ بیڈ کے کنارے لیٹ کر بڑے بیٹے سے  جس کی عمر 17سال ہے  ٹانگیں دبوا رہے تھے اور میں کمرے میں ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے کام نمٹاتی پھر رہی تھی تاکہ جمعہ کی نماز سے پہلے کام نمٹ جائیں ،اسی دوران میں کمرے سے باہر جانے کے لئے جب  مڑنے لگی تو شوہر اور بیٹے کی طرف میری پیٹھ تھی مڑنے کے دوران مجھے پاؤں ٹکرایا میں سمجھی کہ میرے شوہر کا پاؤں ہے دبوانے کے دوران انہوں نے زمین پر رکھ لیا ہے یہ سمجھ کر مجھے صرف خوشی محسوس ہوئی کہ چلو اسی بہانے مجھ سے ٹکرائے  یہ محسوس کر کے میں نے جان بوجھ کر اپنا پاؤں مکمل طرح سے مزید ٹکرایا تاکہ مجھے شوہر کا بھرپور لمس مل جائے اور مجھ سے چھونے پر شاید وہ مان جائیں،چند سیکنڈوں کے اس عمل کے بعد میں کچن میں جانے کے لئے مڑی تو دیکھا کہ شوہر تو بیڈ پر ہی لیٹے ہوئے ہیں  ان کے پاؤں اوپر بیڈ پر ہی ہیں زمین پر پاؤں میرے 17سال کے بیٹے کا تھا  جو زور وشور سے باپ سے باتیں کرتے ہوئے باپ کو دبانے میں مگن تھا کمرے میں سب افراد موجود تھے۔شوہرمجھ سے ناراض تھے میں دل ودماغ سے مکمل کام نمٹانے کی فکر میں تھی،شہوت کا نہ ہی ماحول تھا نہ ہی امکان نہ ہی دل میں کوئی داعیہ تھا محض ایک خوشی کا احساس تھا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔اس اعتماد کے باوجود کہ کسی قسم کی شہوت محسوس نہیں ہوئی ہم پھر بھی پریشان ہو رہے ہیں حالانکہ ہم نے مفتی عبدالواحد (رحمہ اللہ )کی آسان کردہ مسائل بہشتی زیور حصہ دوم  میں حرمت مصاہرت کا باب پڑھا ہے جس میں انہوں نے آج کے دور کے مطابق پرانے مسائل میں ترمیم کی ہے جس کا سکرین شارٹ آپ کو بھیج رہے ہیں اس میں ہمارے مسائل میں آسانی ہے مگر ہم مزید دل کی تسلی اور اطمینان کے لئے آپ کو زحمت دے رہے ہیں ۔براہ مہربانی ہماری راہنمائی کریں کہ  ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحبؒ کی تحقیق کے مطابق حرمت مصاہرت ثابت ہوئی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(2-1)مذکورہ دونوں صورتوں میں حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحبؒ کی رائے کے مطابق حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، (فقہ الاسلامی،صفحہ نمبر34)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved