• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حرمت مصاہرت کی ایک صورت

استفتاء

میرا سوال یہ ہے کہ میرا سسر یعنی میرے خاوند کا والد میرے جسم کو ہاتھ لگاتا ہے اور منہ لگاتا ہے اور کئی بار لگایا ہے یعنی آگے کی شرم گاہ اور سینے پر بغیر کسی کپڑے کے حائل کے ہاتھ لگایا ہے تو کیا میں اپنے خاوند کے لیے حلال ہوں یا حرام؟

یہ مسئلہ ایک سال پہلے بھی ہوا تھا اور شعبان سے رمضان کے کچھ روز بعد تک چلتا رہا اور میرے سسر نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ رمضان کے گزر جانے کے بعد میں تم سے صحبت کرنا چاہتا ہوں، اگر ایسا نہیں ہوا تو میں تمہاری زندگی تم پر حرام کر دوں گا اور ان تمام باتوں کا میرا شوہر بھی معترف ہے قرآن و سنت کی روشنی میں آپ میری رہنمائی فرمائیں۔

سسر کا بیان:

یہ مجھ پر الزام ہے میری بہو کے کسی غیر مرد سے ناجائز تعلقات تھے کئی بار میں نے اس کو فون پر بات کرتے ہوئے پکڑا اور برا بھلا کہا جو آدمی میری بہو سے بات کرتا تھا میں نے اس کو مارا بھی۔اس لئے مجھ سے انتقام لینے کے لئے بہو نے مجھ پر الزام لگایا ہے۔

شوہر کا بیان:

شوہر نے سب گھر والوں کے سامنے یہ بیان دیا کہ میرا دل کہتا ہے والد صاحب سچے ہیں اور بیوی جھوٹی ہے میں نے اس کی بات کی تصدیق نہیں کی یہ جملہ کہ ” ان تمام باتوں کا میرا شوہر بھی معترف ہے”  اس نے اپنی طرف سے سوال میں لکھا ہے۔

لیکن علیحدگی میں شوہر نے یہ بیان دیا کہ بیوی اور والد دونوں میری نظر میں مشکوک ہیں، کیونکہ بیوی کا کردار اچھا نہیں اور میری بیوی میرے والد صاحب کے موبائل سے ہی دوسرے لڑکوں کو فون کرتی تھی لیکن والد صاحب نے یہ بات مجھ سے چھپائی،میں دونوں میں سے کسی کی تصدیق نہیں کرتا۔

بیوی کا بیان:

جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ سچ ہے ،میں نے شوہر کو اس معاملے سے آگاہ کیا تھا لیکن وہ خاموش ہو گئے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں فقہ حنفی کے عام ضابطے کی رو سے   حکم یہ ہے کہ اگر شوہر  بیوی کی تصدیق کرتا ہے تو  بیوی شوہر پر حرام ہو جائے گی، اور اگر شوہر بیوی کی بات کی تصدیق نہیں کرتا اور اس بات پر قسم بھی دیتا ہے کہ ’’میرا غالب گمان یہ ہے کہ میری بیوی اپنے دعوے میں سچی نہیں اور اس واقعہ کا ہونا میرے دل کو نہیں لگتا‘‘  تو بیوی شوہر پر حرام نہ ہوگی، لیکن اگر بیوی اپنے دعوے میں سچی ہے تو اس کے لیے شوہر کو اپنے نفس پر قدرت دینا جائز نہیں۔

البتہ موجودہ دور میں بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں بیوی شوہر پر حرام نہ ہو گی اور بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے،اس کی تفصیل "فقہ اسلامی” مصنفہ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب میں ہے، خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے۔

فتح القدیر (213/3)میں ہے:

وثبوت الحرمة بمسها مشروط بأن يصدقها أو يقع في أكبر رأيه صدقها. وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها: لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه. ثم رأيت عن أبي يوسف أنه ذكر في الأمالي ما يفيد ذلك، قال: امرأة قبلت ابن زوجها وقالت كان عن شهوة، إن كذبها الزوج لا يفرق بينهما، ولو صدقها وقعت الفرقة.

عالمگیری (1/276) میں ہے:

رجل تزوج امرأة على أنها عذراء فلما أراد وقاعها وجدها قد افتضت فقال لها: من افتضك؟ . فقالت: أبوك إن صدقها الزوج؛ بانت منه ولا مهر لها وإن كذبها فهي امرأته، كذا في الظهيرية.

حیلہ ناجزہ (88) میں ہے:

جب عورت دعویٰ کرے کہ میرے اور خاوند کے اصول و فروع  میں سے فلاں مرد کے درمیان یا خاوند اور میرے اصول و فروع میں سے فلاں عورت کے درمیان ایسا ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو حرمت مصاہرت کا موجب ہے لہذا مجھ کو میرے خاوند سے الگ کردیا جائے تو قاضی یا اس کا قائم مقام اولا شوہر سے بیان لے، اگر اس نے عورت کے بیان کی تصدیق کر دی تب تو تفریق کا حکم کر دیا جائے اور اگر خاوند نے اس کے دعوی کی تصدیق نہ کی تو عورت سے گواہ طلب کیے جائیں اگر گواہ پیش نہ ہوں یا ان میں شرائط شہادت موجود نہ ہوں تو خاوند سے حلف لیا جائے اگر وہ حلف کرلے تو مقدمہ خارج کر دیا جائے،یعنی نہ تفریق کی جائے اور نہ یہ حکم کیا جائے کہ عورت بدستور شوہر کے ساتھ رہے، اور اگر وہ حلف سے انکار کر دے تو تفریق کر دی جائے۔

حیلہ ناجزہ(89) میں درمختار کے حوالے سے مذکور ہے:

 (وإن ادعت الشهوة) في تقبيله أو تقبيلها ابنه (وأنكرها الرجل فهو مصدق) لا هي (إلا أن يقوم إليها منتشرا) آلته (فيعانقها) لقرينة كذبه أو يأخذ ثديها (أو يركب معها) أو يمسها على الفرج أو يقبلها على الفم قاله الحدادي.

حیلہ ناجزہ(90) میں ہے:

وأما توجيه اليمين فظاهر للقاعدة المقررة من أن قول المنكر انما يعتبر مع اليمين و نص عليه الفقهاء فى باب الرضاع و حرمة المصاهرة نظير حرمة الرضاع.

حیلہ ناجزہ (91) میں ہے:

اگر عورت کا دعوی صحیح تھا مگر شہادت معتبرہ پیش نہ ہوسکی اور خاوند نے حلف کرلیا اس واسطے قاضی نے مقدمہ خارج کردیا یعنی نہ تفریق کی اور نہ زوجیت میں رہنے کا حکم دیا تو اس عورت کے لئے جائز نہیں کہ اپنے اختیار سے شوہر کو اپنے نفس پر قدرت دے بلکہ خلع وغیرہ کے ذریعہ اپنے آپ کو اس سے علیحدہ کرنے کی کوشش کرے اور اگر کوئی تدبیر کارگر نہ ہو تو جب تک اپنا بس چلے اس شوہر کو پاس نہ آنے دے

( كما صرح به فى الدرالمختار و غيره فى من سمعت من زوجها الطلاق الثلاث و لا بينة لها.)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved