• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اعتکاف کے لیے مسجد جماعت

  • فتوی نمبر: 3-218
  • تاریخ: 19 جون 2010
  • عنوانات:

استفتاء

کیا اعتکاف واجب  اور مسنون کے لیے  مسجد جماعت  شرط ہے؟ جبکہ فتاویٰ کی عبارات اس مسئلہ میں مختلف ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد جماعت  کا ہونا ضروری ہے:

1۔ ” اعتکاف ایسی مسجد میں کیا جائے جہاں اذا اور پنجگانہ جماعت کا اہتمام ہو ویران یا جنگل کی مسجد یا عید گاہ میں نہیں”۔ (فتاویٰ محمودیہ، 2/ 278 )

2۔ "نیز ایسی مسجد  میں اعتکاف کرنا جہاں پنچ وقتہ نماز ادا کی جاتی ہو شرط ہے”۔ ( القاموس الفقہ، 2/ 172 )

” منہا مسجد الجماعة فیصح” ۔۔۔۔( ہدایہ )

اور مندرجہ ذیل عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ  مسجد جماعت کا ہونا ضروری نہیں۔

1۔ ” صحت کے لیے علی الراجح مسجد جماعت شرط نہیں”۔ ( احسن الفتاویٰ 4/ 517 )

2۔ ” مسجد جماعت میں ٹھہرنا خواہ اس مسجد میں پنچ وقتہ  نمازیں جماعت کے ساتھ ہوتی ہوں یانہیں”۔ ( مسائل بہشتی زیور ، 285 )

3۔ ” اعتکاف کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں (۱) مسجد میں ٹھہرنا خواہ اس میں پنچ وقتہ نمازیں ہوتی ہیں یا نہیں”۔ ( علم الفقہ )

4۔ "( مسجد جماعة ) هو ماله إمام  ومؤذن أديت فيه الخمس أو لا ( الدر المختار ) أديت فيه الخمس أو لا صرح بهذا الإطلاق في العناية و كذا في الشهر و عزاه الشيخ إسماعيل إلى الفيض و البزازية و خزانة الفتاوى و الخلاصة و غيرها”. (رد المحتار، 1/44 )

اب حل طلب بات یہ ہے کہ

1۔ کیا اعتکاف  مسنون و واجب کے لیے مسجد جماعت شرط ہے؟

2۔ اس مسئلے میں امام صاحب کے قول پر فتویٰ ہے یا صاحبین کے قول پر  اور اس میں کتنے اقوال ہیں؟

3۔اگر مسجد جماعت شرط ہے ؟ تو مسجد جماعت سے کیا مراد ہے؟

4۔ کیا جامع مسجد میں بھی پنچ وقتہ نماز صحت اعتکاف کے لیے شرط ہے یا نہیں؟ 

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ اعتکاف کس مسجد میں جائز ہے؟ اس کے بارے میں مختلف اقوال ملتے ہیں، چنانچہ امام صاحب رحمہ اللہ سے چار طرح کی روایات منقول ہیں:

الف: و عن أبي حنيفة رحمه الله في رواية لا يصح الإعتكاف إلا في مسجد تصلى فيه.

ب: الصلوات كلها. (خانية ، 1/ 221 )

ج: و في رواية لا يصح إلا في مسجد الجامع. ( بحواله بالا )

د: و في رواية يصح في كل مسجد له أذان و إقامة وهو الصحيح. ( بحواله بالا )

و قالت طائفة الإعتكاف يصح في كل مسجد …. و هو قول أبي حنيفة رحمه الله .( عمدة القاري، 11/ 142 )

اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک ہر ایسی مسجد میں صحیح ہے جو بالکل ویران نہ ہو۔

قوله و قالا يصح في كل مسجد، في القهستاني عن الخلاصة ينبغي أن لا يصح  في مسجد الحياض و مسجد قوارع الطريق و ينبغي أن لا يصح في مصلى العيد و الجنازة. فا لمراد بالمسجد عندهما غير ماذكر . ( حاشية الطحطاوي على الدر، 1/ 473 )

2۔ جی ہاں شرط ہے۔

الف: و منها ( أي من الشروط ) مسجد الجماعة فيصح في كل مسجد له أذان و إقامة هو الصحيح كذا في الخلاصة. ( هندية، 1/ 211 )

ب: ثم الاعتكاف لا يصح إلا في مسجد الجماعة أي و إن لم  تصل فيه الصلوات الخمس بالجماعة و إنما يؤدى بعضها . ( كفاية، 2/ 308، تاتارخانية، 2/ 260)

ج: في الخلاصة والخانية و يصح في كل مسجد له أذان و إقامة و هو الصحيح و هذا هو مسجد الجماعة كما في العناية. (النهر الفائق، 2/ 44 )

  1. مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مسجد جماعت سے مراد ایسی مسجد ہے جس کا امام اور مؤذن مقرر ہو اگر چہ پانچ وقت جماعت کا اہتمام نہ ہو۔

4۔ جامع مسجد میں پنچ وقتہ یا جماعت بالاتفاق شرط نہیں ایک دو وقت کا فی ہے۔

و في الذخيرة أراد أبو حنيفة رحمه الله بهذا ( أي باشتراط أداء الخمس فيه بالجماعة غير المسجد الجامع فإنه يجوز الاعتكاف فيه و إن لم يصلوا فيه الصلوات كلها بالجماعة. ( كفاية، 2/ 308 )۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved