- فتوی نمبر: 4-301
- تاریخ: 16 دسمبر 2011
- عنوانات: مالی معاملات
بندہ اقرا روضتہ الاطفال ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلے والے اقرا حفاظ سیکنڈری سکول راج گڑھ لاہور میں کچھ عرصہ سے تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا ہوں۔ ادارہ میں کچھ عرصہ سے بنک اکاؤنٹ کھلوانے کی بات چلنے پر بالآخر پچھلے ماہ ( اکتوبر ) میں تمام اساتذہ کے بنک اکاؤنٹ مسلم کمرشل بنک سے سیونگ کی حیثیت سے کھلوائے گئے ہیں۔ جبکہ (الف) ایسی حالت میں ( BBA ) کی حیثیت سے اس کا کھلوانا ممکن بھی ہو۔ ( ب ) اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بارے میں یہ بات بنک کی طرف سے بتائی جارہی ہے کہ اس کے کھلوانے کی صورت میں اس میں دس ہزار کی رقم کا رکھنا ہر وقت کے لیے ضروری ہے۔ جو فی الحال قریب بہ محال بلکہ ناممکن ہے۔ تو اس صورت میں:
۱۔ کیا بنک یا ادارہ کی طرف سے صرف سیونگ اکاؤنٹ ہی کھلوانے کا انتظام کرنا یا اس پر مجبور کرنا درست ہے؟
۲۔ کیا اس صورت میں بندہ کا وہاں سے معاوضہ لے لینا درست ہے؟ جبکہ یہ خیال ہو کہ اس میں رقم پڑی رہنے پر ہی سود لاگو ہوگا۔ اس لیے تنخواہ جو اشد ضرورت کے لیے پوری ہی نکلوائی جاتی ہے، سود سے پاک رہے گی۔ صرف نام ہی تو سیونگ کا استعمال ہوا ہے۔ کیا اس نیت سے اکاؤنٹ کھلوانا درست ہے؟
۳۔ کیا بندہ ایسی صورت میں حرام میں معاون بنے گا؟ کہ اکاؤنٹ سیونگ ہی کھلوا لیا جائے اور صورتوں کی موجودگی کے باوجود؟
بعض وضاحتیں:
۱۔ اقراء روضتہ الاطفال لاہور کے کوارڈینیٹر رانا ساجد سے بندہ نے فون پر پتہ کیا کہ کیا ادارے کی طرف سے ملازمین کے لیے سیونگ اکاؤنٹ ہی کھلوانا ضروری ہے یا کرنٹ بھی کھلواسکتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ سیونگ ہی ضروری نہیں۔ کرنٹ بھی کھلوا سکتے ہیں۔
۲۔ کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی صورت میں اگر دس ہزار روپے اکاؤنٹ میں مستقل رکھے ہوئے نہ ہوں تو 58 روپے ماہانہ کٹوتی ہوتی ہے، جوکہ سائل کے لیے مشکل نہیں۔
۳۔ بیسک اکاؤنٹ کی سہولت بھی موجود ہے جس میں نہ تو مخصوص رقم کی شرط ہے اور نہ ہی کٹوتی ہوتی ہے۔
الجواب
مذکورہ صورت میں آپ کرنٹ اکاؤنٹ بھی کھول سکتے ہیں، اور بیسک بنک اکاؤنٹ بھی کھول سکتے ہیں۔ البتہ سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ بنک کو یہ لکھ کر دے دیں کہ رقم جمع رہنے کی صورت میں وہ آپ کا نفع نہ لگائیں
© Copyright 2024, All Rights Reserved