- فتوی نمبر: 34-214
- تاریخ: 17 دسمبر 2025
- عنوانات: عبادات > حج و عمرہ کا بیان > جنایات کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مذکورہ مسئلہ کے بارے میں کہ ہر سال ذیابیطس کے ہزاروں مریض حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں جن میں اکثر مریضوں کو دوران حج وعمرہ یا واپسی کے سفر میں پاؤں میں مختلف اقسام کے امراض لاحق ہوتے ہیں۔ ایسے مریضوں میں محسوس کرنے کی حس ختم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے چپل پاؤں سے نکل جاتی ہے اور مریضوں کو پتہ بھی نہیں چلتا جس کی وجہ سے پاؤں یا انگلیاں کاٹنے کی بھی نوبت آجاتی ہے جس کی بڑی وجہ ننگے پیر یا قینچی والی چپل یا غیر معیاری چپل کا استعمال ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا احرام کی حالت میں مذکورہ چپل کا استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب حامدا ومصلیا
احرام کی حالت میں خواتین کیلئے تو قدم کا کوئی حصہ کھولنا ضروری نہیں، اس لیے وہ ہر طرح کی چپلیں اور جوتے پہن سکتی ہیں۔ لیکن مردوں کو احرام کی حالت میں قدم کے درج ذیل حصوں کو کھلا رکھنا ضروری ہے:
(۱) دونوں ٹخنے (۲) پاؤں کے بیچ کی ہڈی کچھ نیچے تک (۳) ایڑی سے اوپر کا وہ حصہ جو ٹخنوں کی سیدھ میں ہے۔ (۴) اور بقول علامہ شامی رحمہ اللہ ایڑی بھی چھپانا جائز نہیں ہے، لہذا بہتر ہے کہ ایڑی بھی کھلی رکھی جائے( مزید وضاحت کیلئے پاؤں کے ان حصوں کا نقشہ منسلک ہے اسے ملاحظہ فرمائیں) اور ایسی ہوائی چپل یا جوتا پہنے جس میں پاؤں کے مذکورہ چاروں حصے کھلے رہیں، لیکن اسکے باوجود اگر مُحرِم نے ایسا جوتا پہنا جس میں (1 تا 3) مذکورہ تینوں حصے کھلے رہے، لیکن ایڑی چھپ جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، کوئی دم ، صدقہ و غیر لازم نہ ہو گا۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ سوال نامے میں آپ حضرات نے تین چپلوں کی تصویریں بھیجی ہیں: (1) سیاه (تصویر نمبر 1 تا 4) اسکی تصاویر دیکھنے سے معلوم ہو رہا ہے کہ اسکو پہننے کے بعد پاؤں کی بیچ کی ہڈی سے لیکر نیچے تک کا حصہ اور ٹخنے تو کھلے رہتے ہیں، لیکن ٹخنوں کی سیدھ میں واقع ایڑی کے اوپر کا حصہ چھپ جاتا ہے، اس لیے اس چیل کو حالت احرام میں پہنا درست نہیں، احتیاط کے خلاف ہے۔البتہ براؤن رنگ کی چپل (۲) (تصویر نمبر 5تا9) میں پاؤں کی بیچ کی ہڈی، ٹخنے اور اسکی سیدھ میں واقع ایڑی کے اوپر کا حصہ تینوں کھلے رہتے ہیں، لہذا احرام کی حالت میں اس طرح کی چپل پہننا جائز ہے۔
اور تیسری چپل (تصویر 10) دیکھنے سے خواتین کی معلوم ہوتی ہے اور جیسا کہ شروع میں گذرا کہ خواتین کیلئے قدم کے کسی بھی حصے کو کھلا رکھنا ضروری نہیں، اس لیے خواتین حالت احرام میں یہ چپل پہن سکتی ہیں۔ البتہ اگر یہ چپل بھی مرد حضرات کیلئے ہوں تو ٹخنے کی سیدھ میں واقع ایڑی کے اوپر کا حصہ چھپنے کی وجہ سے اسکو حالت احرام میں پہنا درست نہ ہو گا۔ (ماخذہ تبویب: ۱۵۰۹/ ۵۳)
واضح رہے کہ چونکہ اصل جوتے (جن کے بارے میں سوال کیا گیا ہے) ہمارے سامنے نہیں، اس لیے جواب میں اصولی بات ذکر کر دی گئی ہے، اسکی روشنی میں کسی بھی جوتے کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ مردوں کے لئے احرام کی حالت میں اس کا استعمال درست ہے یا نہیں؟
ردالمحتار (2/490)
(قوله أسفل من الكعبين) الذي في الحديث وليقطعهما حتى يكونا أسفل من الكعبين، وهو أفصح مما هنا ابن كمال والمراد قطعهما بحيث يصير الكعبان وما فوقهما من الساق مكشوفا لا قطع موضع الكعبين فقط كما لا يخفى
غنیۃ الناسک (87)
والكعب هنا العظم المثلث المطبن على ظهر القدم عند معقد الشراك دون الناتي فيما روى هشام عن محمد رحمهما الله تعالى
تنبيه : والمكعب السرموزة ونحوها مما ينتهي إلى الكعب ، يعني وإن كان يستر العقب كالكوش الهندي ونحوه ، لأن النص لم يوجب أن يبالغ في قطع الخفين حتي يكونا كالسرموزة وهو البابوج ، بل أوجب قطعهما حتى يكونا أسفل من الكعبين ، سواء كانا كالسرموزة أو كالكوش الهندي. وعن هذا فسر الشارح رحمه الله تعالي المكعب بالكوش الهندي ، ولم يلتفت إلى أنه يستر العقب ، فما في رد المحتار: “والظاهر أنه لا يجوز ستر العقب” ويتفرع عليه عدم جواز لبس الكوش الهندي ونحوه مما يستر العقب ، ليس بظاهر ، نعم لو كان الكوش الهندي يستر العقب وما فوقه مما يحاذي الكعب ينبغي أن لا يجوز لبسه ، لأنه لم يكن أسفل من الكعبين في كل جانب وهو الظاهر من النص ، ولعله حمل النص على قطع الخفين حتى يكونا كالنعلين من جانب المؤخر والله سبحانه وتعالى أعلم
زبدة المناسك مع عمدة المناسک (۱۰۴) میں حضرت مولانا شیر محمد صاحب فرماتے ہیں :
اکثر عوام خواص میں یہ مشہور ہے کہ فقط پیر کی بیچ کی ہڈی کھلی رکھنا ضروری ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ مگر وضو میں جو دو كعبين دھونے واجب ہیں ، ان کے اوپر سے لے کر پیر کی بیچ کی بڑی سے بھی کچھ نیچے تک کاٹنا چاہیے کہ اچھی طرح پیر کی بیچ کی ہڈی سے نیچے سے اوپر دونوں ٹخنوں تک مع اطراف پیر اور ایڑی کے موزہ وغیرہ سے خالی رہے اور مثل جوتی کے رہ جائے۔
نیز معلم الحجاج ( طبع جدید حضرت مولانا مفتی یعقوب صاحب) صفحہ ۳۰۷ کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:
اس مسئلے میں ، میں بھی مدت تک مغالطہ میں رہا اور علی العموم لوگ بھی یہی سمجھتے رہے کہ محض اس ہڈی کا کھلا رکھنا ضروری ہے۔ اگر چہ اور سارا پاؤں موزہ وغیرہ میں مستور رہے تو حرج نہیں ہے۔
بعد میں یہ عبارتیں ملیں اور علماء نے بھی تصحیح فرمائی :
الذي في الحديث وليقطعهما حتى يكونا أسفل من الكعبين، وهو أفصح مما هنا ابن كمال والمراد قطعهما بحيث يصير الكعبان وما فوقهما من الساق مكشوفا لا قطع موضع الكعبين فقط كما لا يخفى
اس کے بارے میں تفصیلی رائے درکار ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ فتوے میں مرد کے لیے جن جوتیوں کی احرام کی حالت میں پہننے کی اجازت دی گئی ہے ہماری تحقیق کے مطابق مرد کے لیے ان جوتیوں کا احرام کی حالت میں پہننا جائز نہیں۔
توجیہ: احرام کی حالت میں مرد کے پاؤں کی صرف ان چار جگہوں کا کھلا رہنا کافی نہیں جن کا ذکر مذکورہ فتوے میں ہے بلکہ جوتے کا ہر طرف سے پنڈلی سے لے کر پاؤں کی درمیان والی ہڈی کے نیچے تک ہونا ضروری ہے حتی کہ پنڈلی کے بھی کسی حصے پر جوتی کے کسی حصے کا ہونا جائز نہیں جیساکہ فتوے میں دیے ہوئے حوالوں( کی خط کشیدہ عبارتوں) میں اس کا ذِکر ہے جبکہ مذکورہ جوتیوں کے سٹریپ درمیان والی ہڈی سے اوپر پنڈلی پر بھی آرہے ہیں اور اسی طرح اوپر کے سٹریپ کو نیچے تلوے سے ملانے کے لیے پاؤں کے دونوں طر ف کے سٹریپ درمیان والی ہڈی سے اوپر تک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved