• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اجارہ فاسدہ کی ایک صورت کا حکم

استفتاء

1۔مسئلہ یہ ہے کہ زید خالد سے کہتا ہے کہ زمین میری  ہے زمین میں تیار کنواں اور میرے پاس تیار پانی نکالنے والی مشین بھی ہے لیکن میرے پاس سولر کے پیسے نہیں ہیں۔ آپ خالد مجھے اتنے (چند معلوم سولرز) دے دو میں زمین کو آباد کرونگا،ان شرائط پر کہ زمین میں عمل میں یعنی مالک زمین زید کرونگا  پیداوار کا نصف آپ کا اور نصف میرا ہوگا اور یہ معاہدہ معلوم مدت تین سال تک ہے مدت کے اختتام پر وہ خالد کے دیئے ہوئے سولرز بھی واپس خالد کو ہی ملیں گے ۔

اسی صورت کے جواز کا فتویٰ یہاں کے دو علماء نے دیا ہے وہ دو علماء اس مسئلے کو قیاس کرتے ہیں فتاویٰ حقانیہ(اردو زبان میں ناشر جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)جلد نمبر چھ صفحہ دوسو ستتر اجارہ فاسدہ کے جواز کی صورت پر۔

اجارہ فا سد ہ کے جواز کی صورت

سوال :۔ایک شحص نے اپنی ٹیکسی کسی ڈرائیو ر کو اس شر ط پر دی کہ تم اس کو چلا ؤ جو منا فع ہو گا اس میں سے ۶۰فیصد میرا ہو گا اور ۴۰فیصدآپ کا۔ در یا فت طلب امریہ ہے کہ کیا شر عا یہ اجا رہ در ست ہے یا نہیں؟

الجواب  اجا رہ کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ مقدار اجرت اور مدت وغیرہ متعین ہو ، اگر کہیں اجرت یا مدت میں جہا لت آجا ئے تو اجا رہ فا سد ہو جا ئے گا اسلئے کہ جہا لت مفضی الی النزاع ہو تی ہے اور عموما جھگڑااور فساد پیدا کر تی ہے۔صو ت مسئو لہ میں اجرت اگر چہ مجہول ہے جسکی وجہ سے اجا رہ فا سد ہو نا چا ہیے ۔ مگر آج کل چونکہ اس طرح کے معا ملا ت بکثرت ہو تے ہیں اور لو گ اسے معا ملہ کو مفضی الی النزاع نہیں بنا تے ، اسلئے مذ کو رہ معاملہ بھی درست ہے کیو نکہ فسا د نہ ہو نے کی صو رت میں معا ملہ فی ذاتہٖ درست اورصحیح ہو تا ہے البتہ کسی فا سد وصف کی وجہ سے اس میں فسا د پیدا ہو جا تا ہے اور جب اس فسا د کی علت ختم ہو جا ئے تو وہ معا ملہ اپنے حا ل پر با قی رہتا ہے ۔ فقہی ذخا ئر میں اس قسم کی مثا لیں مو جو د ہیں ، اور ویسے بھی عمو م بلویٰ کی وجہ سے احکا م تبدیل ہو تے ہی رہتے ہیں۔ لما قال العلامة الحصکفی: الفاسد من العقود ماکان مشروعاً باصله دون وصفه۔ (الدرالمختارعلی صدر ردالمحتار:ج؍۶،ص؍۴۵، باب الاجارۃ الفاسدۃ)

یہ معاملہ کیسا ہے؟ نیز ان کا قیاس کیسا ہے ؟

2۔کیا یہ جائز ہے کہ زید خالد کو سولرز  کا  نقد معلوم کرایہ دیا کرے خواہ وہ روزانہ کی بنیاد پر ہو یا فی گھنٹے کے حساب پر؟

وضاحت مطلوب ہے: آپ کے علاقے میں مذکورہ معاملہ کا عام عرف ہے یا کبھی کبھی یہ صورت ہوتی ہے؟

جواب وضاحت: کبھی کبھی یہ صورت ہوتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ معاملہ  جائز نہیں، اور ان کا قیاس بھی درست نہیں۔

توجیہ:مذکورہ صورت اجارے کی بنتی  ہے کہ سولر کا مالک اپنے سولر زمین کے مالک کو اجارے پر دے رہا ہے اور اجارے میں اجرت متعین ہونا شرط ہے جبکہ مذکورہ صورت میں اجرت متعین نہیں ہے اور علی الخطر بھی ہے کہ ہو نہ ہو  نیز آپ کے علاقے میں اس کا  عام عرف بھی نہیں ہے  اس لیے مذکورہ صورت جائز نہیں اور   مذکورہ مسئلے کو فتاویٰ حقانیہ میں مذکور فتوے پر قیاس کرنا درست نہیں اس لیے کہ اس فتوے میں اجارہ فاسدہ کے جواز کی اجازت عرف کی بنیاد پر دی گئی ہے چنانچہ فتوے کی عبارت ہے کہ ” صورتِ مسئولہ میں اجرت اگرچہ مجہول ہے جس کی وجہ سے اجارہ فاسد ہونا چاہیے ، مگر آج کل چونکہ اس طرح کے معاملات بکثرت ہوتے ہیں اور لوگ ایسے معاملات کو مفضی الی النزاع نہیں بناتے اس لیے مذکورہ معاملہ بھی درست ہے” جبکہ سوال میں مذکور صورت کا  آپ کے علاقہ میں عرف نہیں ہے ۔

2۔مذکورہ صورت جائز ہے۔

الدر المختار(9/ 9)میں ہے:

وشرطها ‌كون ‌الأجرة والمنفعة ‌معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved