• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اجارہ کی مدت ختم ہونےسےپہلےمستاجرکاعقداجارہ کوختم کرنا 

استفتاء

علی نے زید کو دکان کرایہ پر دی،دونوں کا یہ معاہدہ ہوا کہ زید تین سال تک دکان اپنے پاس رکھے گا،اگر اس سے پہلے خالی کرے گا تب بھی پورے تین سال کا کرایہ ادا کرنا لازمی ہوگا۔

ابھی تین سال میں چار مہینے باقی ہے لیکن زید نے دکان خالی کر دی ہے،کیونکہ اس کو دوسری جگہ اس سے سستی دکان مل گئی ہے اور آج کل کاروبار بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔کیا علی باقی چار مہینوں کا کرایہ لینے کا حقدار ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ آپس میں تین سال کی کرایہ داری کا معاہدہ ہوا تھا اس لئے زید،علی کی رضامندی کے بغیر خود چار مہینے پہلے اس معاملہ کو ختم نہیں کرسکتااور علی کو باقی چار مہینے کاکرایہ لینے کا حق ہے ،اور اس صورت میں چار مہینے تک وہ دکان زید کے اجارے میں سمجھی جائے گی لہذا وہ اسے استعمال کر سکتا ہے علی اس سے نفع نہیں اٹھا سکتا  البتہ باہمی رضامندی سے ختم کرنا چاہے تو ختم کر سکتے ہیں،اس صورت میں علی باقی مہینوں کا کرایہ نہیں لے سکتا البتہ اسے آگے جہاں چاہے کرایہ پر دےسکتا ہے۔

المغنی(6/ 25)میں ہے: ومن استأجرعقارامدةبعينهافبداله قبل تقضيها، فقد لزمته الأجرة كاملة، وجملته أن الإجارة عقد لازم يقتضي تمليك المؤجر الأجر والمستأجر المنافع فإذا فسخ المستأجر الإجارة قبل انقضاء مدتها وترك  الانتفاع اختيارا منه لم تنفسخ الإجارة والأجرلازم له ولم يزل ملكه عن المنافع.امدادالاحکام(3/556)میں ہے:سوال:دس یا بیس سال کے واسطے فی بیگہ دو روپیہ سال کے حساب سے مثلاً دس بیگہ زمین لی، اور یہ شرط طے ہوگئی کہ دس سال کے واسطے میں یہ زمین تمہاری اجارہ پر لیتا ہوں اور مبلغ دو سو روپیہ پیشگی تم کو دیتا ہوں، ہر سال دس بیگہ کافی بیگہ دو روپیہ کے حساب سے مبلغ بیس روپیہ منہا ہوتے رہیں گے، جب دس سال پورے ہوگئے تو میرا روپیہ دو سو ختم اور آپ کی زمین آپ کے قبضہ میں ، اور اگر تم کو روپیہ دوسرے یا تیسرے یا پانچویں سال مل جائے اور تم کو زمین کی ضرورت ہوجائے تو جتنے سال میرے قبضہ میں زمین رہی ہو اتنے سال کے حساب سے فی سال بیس روپیہ کاٹ دیئے جائیں گے، باقی روپیہ دیکر اپنی زمین چھڑا لینا اس اجارہ کو عرف میں مستاجری کہتے ہیں، آیا ایسا اجارہ شریعت میں جائز ہے یا نہیں؟        

الجواب :یہ صورتِ مستاجری ناجائز ہے، کیونکہ مدتِ اجارہ مجہول ہے نامعلوم کس وقت مالک کو زمین کی ضرورت پڑجائے اور وہ رقم واپس کرکے زمین کو واپس لے لے۔و کون المدۃ معلومۃ شرط لصحۃ الاجارۃ، صرّح بہ الفقہاء۔

صورتِ جواز یہ ہے کہ اجارہ مدّتِ معینہ پر کیا جائے کہ اتنے سال کے واسطے یہ زمین کرایہ پر دی جاتی ہے اور سالانہ یہ کرایہ ہے ، اس کے حساب سے چاہے اجرت پیشگی طے کرلی جائے یا سالانہ لی جائے ، اختیار ہے معاملہ کو تو اس پر ختم کردیا جائے اس کے بعد جب مالک کو ضرورت ہو تو تراضی طرفین سے اس وقت عقد فسخ کردیا جائے مگر کسی کو کسی پر جبر کا حق نہ ہوگا اور اس کا بھی مضائقہ نہیں کہ عقد کو اسی صورتِ مذکورہ جواب پر کرکے اس کے پہلے یابعد کو مجلس آخر میں یہ بات باہمی رضامندی سے کرلی جائے کہ اگر مالک کو بیچ میں ضرورت ہوگی تو وہ اجارہ کو فسخ کرکے زمین مدت معلومہ سے پہلے بھی واپس لے سکتا ہے۔ اور حساب مذکورہ سے کرایہ کی واپسی ہوجائے گی مگر یہ صرف وعدہ ہوگا جس میں جبر نہ ہوگا۔ واللہ اعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved