• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اختیار پراویڈنٹ فنڈ کا حکم

استفتاء

یہ مسئلہ پہلے بھی پوچھا گیا، لیکن مزید تفصیل سے وضاحت فرما دیں۔

میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا ہوں، اور کمپنی پراویڈنٹ فنڈ سکیم کی صورت میں ملازموں کو فائدہ دیتی ہے۔ ہر مہینے ہماری تنخواہ سے کچھ پیسے کاٹے جاتے ہیں، اور اتنی ہی رقم کمپنی شامل کرتی ہے۔ پھر سال گذر جانے کے بعد اس مجموعی رقم پر سود (Interest) دیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پراویڈنٹ فنڈ کے لیے اپنی تنخواہ سے پیسے کٹوانا یہ اختیاری () ہے۔ اگر ہم پیسے نہیں کٹوائیں گے، تو کمپنی بھی کوئی رقم شامل نہیں کرے گی۔ مزید یہ کہ مجموعی رقم کچھ ضروریات کے تحت نکلوائی بھی جاسکتی ہے۔ مثلاً مکان کی تعمیر وغیرہ کے لیے۔

مفتی صاحب سے التماس ہے کہ نیچے دیے گئے سوالات کا الگ الگ جواب مرحمت فرما دیں:

1۔ کیا پراویڈنٹ فنڈ میں رقم کٹوانا جائز ہے؟

2۔ کیا سال گذرنے کے بعد جو انٹرسٹ (سود) دیا جاتا ہے وہ جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں چونکہ پراویڈنٹ فنڈ کی اسکیم اختیاری ہے، اس لیے ہر ملنے والے انٹرسٹ میں سود کا شبہ ہے۔ لہذا اگر آپ شروع ہی میں یہ درخواست دیں کہ میں نے انٹرسٹ وصول نہیں کرنا، تو مذکورہ  صورت میں پراویڈنٹ فنڈ میں رقم کٹوانا جائز ہے۔

2۔ مذکورہ صورت میں چونکہ پراویڈنٹ فنڈ کی اسکیم اختیاری ہے، اس لیے پراویڈنٹ کی رقم پر ملنے والا انٹرسٹ سود کے شبہ سے خالی نہیں۔

فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved