• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اختیاری کٹوتی والے پراویڈنٹ فنڈ پر ہونے والے اضافے کا حکم

استفتاء

ہماری کمپنی جس میں میں ملازمت کرتا ہوں اپنے ملازم کی تنخواہ میں سے 8.33% کٹوتی کرتی ہے پراویڈنٹ فنڈ کے لیے، اتنی ہی رقم کمپنی بھی پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم کے لیے جمع کرتی ہے مثلاً اگر ملازم کے ایک سو روپے جمع ہوتے ہیں تو اتنے ہی کمپنی ملازم کے لیے جمع کرتی ہے۔ جمع شعدہ رقم سے کمپنی مختلف جگہ سرمایہ کاری کرتی ہے، اس وقت کمپنی نے 5.73% اسلامک بینکنگ میں بچت اکاؤنٹ میں جمع کیا ہوا ہے اور باقی 94.23% کمپنی مختلف اثاثہ جات کے انتظام  کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ اثاثہ جات کے انتظام کی کمپنیاں آگے مختلف کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتی ہے، اور کہاں کرتے ہیں اس کا علم نہیں ہوتا۔ ان دونوں سرمایہ کاری سے ہماری کمپنی کو صرف نفع ہوتا ہے نقصان آج تک نہیں ہوا اور نہ ایسی جگہ کمپنی پیسے لگاتی ہے جہاں نقصان ہو۔ اس نفع کو کمپنی اپنے ملازمین میں تقسیم کرتی ہے۔ ہر ملازم کو پوچھا جاتا ہے کہ اس کو نفع کا حصہ چاہیے؟ اگر ملازم نفع نہ لے تو نفع باقی ملازمین میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ جو اصلی سرمایہ کاری کی رقم ہوتی ہے یعنی جو ملازم نے اپنی تنخواہ میں سے کٹوتی کروائی اور اتنی ہی رقم کمپنی کی طرف سے ملازم کا حق ہوتا ہے وہ کبھی بھی لے لے۔ ملازم کو جب سال پورا ہو جائے پھر کمپنی یہ پالیسی شروع کرتی ہے۔

1۔  کیا اس سرمایہ کاری میں حصہ لینا اور نفع لینا جائز ہے؟

2۔ اور ہمیں اصل رقم کے علاوہ جو کمپنی اپنی طرف سے زائد رقم دیتی ہے کیا ہم اس رقم کو لے سکتے ہیں یا نہیں؟

وضاحت: کمپنی جو ہر مہینے کٹوتی کرتی ہے اس میں بندے کو اختیار ہوتا ہے چاہے کٹوتی کروائے یا نہ کروائے۔ لیکن کٹوتی کروانے کے بعد اختیار نہیں ہوتا کہ کمپنی اس پیسے سے سرمایہ کاری کرے یا کچھ اور کرے وہ کمپنی اپنی مرضی سے کرتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں پراویڈنٹ فنڈ کی مد میں ملازم کی تنخواہ میں سے جو کٹوتی ہوتی ہے وہ چونکہ اختیاری ہے اس لیے کمپنی کی

طرف سے جو رقم نفع (سود) کی مد میں دی جاتی ہے اس کا لینا درست نہیں۔ البتہ ملازم کی تنخواہ سے جو 8.33% کٹوتی ہوئی ہے وہ اور اتنی ہی رقم جو کمپنی اپنی طرف سے شامل کرتی ہے وہ، ان دونوں رقموں کو لینا جائز ہے کیونکہ یہ دونوں رقمیں تنخواہ کا ہی حصہ بنتی ہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved