• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

علاج کے طور پر حرام چیز استعمال کرنا

استفتاء

میں دوبئی میں کام کرتا تھا تو وہاں کی دوائی سے مجھے آرام نہیں آتا تھا میں نے ہر ممکن کوشش کی مگر آرام نہ آیا تو پھر میں نے شراب پانی میں ملاکے پی تو آرام آگیا ایسا میں تب ہی کرتا تھا جب مجھے آرام نہ آتا ۔یہ میری عادت نہیں تھی سوال یہ ہیکہ اسلام میں ایسے حالات میں کیا حکم ہے مطلب یہ کہ اگر حلال چیز سے آرام نہ آئے تو حرام چیز سے کام چلایا جاسکتا ہے ۔اب میں  پاکستان میں ہوں ،اب میں نہیں پیتا کیونکہ یہاں کی دوائی مجھے راس آگئی ہے ۔

وضاحت مطلوب ہے(1)آپ کو کیا بیماری ہے؟ (2)دبئی میں کون سی دوائی کھارہے تھے جس سے آرام نہیں آیا ؟ (3)پاکستان میں کونسی دوائی سے آرام آیا؟(4)کسی ڈاکٹر کے کہنے پر شراپ پی یا از خود ؟(5)جب پاکستان کی دوائی سے آرام آگیا تو اب پوچھنا کیا چاہتے ہیں ؟

جواب وضاحت:مجھے خاندانی بیماری نزلہ کھانسی کی ہے ۔دبئی میں بھی اسی کی ہی دواکھا رہا تھا اورڈاکٹر کےکہنے پر نہیں پی تھی ۔میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگرکوئی بھی بیماری ہو اورحلال چیز سے کوششیں کرنے کے بعد آرام نہ آے تو کیا ہم حرام چیز کا استعمال کرسکتے ہیں ؟ادھر پاکستان میں نارمل ڈاکٹر سے دوائی لی تھی تو آرام آگیا تھا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حرام چیز (جس کی حرمت متفق علیہ ہو) کو بطور دوا بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ البتہ اگر کوئی ماہر مسلمان طبیب یہ کہہ دے کہ آپ کے مرض کی اس حرام چيز کے علاوہ کوئی حلال دوا میسر نہیں اور اس چيز سے اس مرض کے دور ہونے کا غالب گمان ہو تو اس حرام  چیز کو بقدر ضرورت بطور دوا استعمال کرنے کی گنجائش ہے لیکن یہ ایک اصولی بات ہے لہٰذا آئندہ اگر ایسی نوبت آئے تو اس کی تفصیل بتا کر مسئلہ معلوم کر لیا جائے۔

نوٹ: آپ نے سر درد کے لیے جو شراب پانی میں ملا کر استعمال کی اس کا استعمال کرنا مذکورہ ضابطے کی رو سے ناجائز تھا لہٰذا اس پر توبہ و استغفار کریں۔ شامی (7/508)میں ہے:

مطلب في التداوي بالمحرم قوله: (ورده في البدائع الخ) قدمنا في البيع الفاسد عند قوله: ولبن امرأة أن صاحب الخانية والنهاية اختارا جوازه إن علم أن فيه شفاء ولم يجد دواء غيره. قال في النهاية وفي التهذيب: يجوز للعليل شرب البول والدم والميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن فيه شفاءه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه، وإن قال الطبيب يتعجل شفاؤك به فيه وجهان. وهل يجوز شرب العليل من الخمر للتداوي؟ فيه وجهان، كذا ذكره الامام التمرتاشي، وكذا في الذخيرة. وما قيل إن الاستشفاء بالحرام حرام غير مجرى على إطلاقه، وأن الاستشفاء بالحرام إنما لا يجوز إذا لم يعلم أن فيه شفاء، أما إذا علم وليس له دواء غيره يجوز. ومعنى قول ابن مسعود رضي الله عنه: لم يجعل شفاؤكم فيما حرم عليكم، يحتمل أن يكون قال ذلك في داء عرف له دواء غير المحرم، لانه حينئذ يتسغني بالحلال عن الحرام، ويجوز أن يقال: تنكشف الحرمة عند الحاجة فلا يكون الشفاء بالحرام وإنما يكون بالحلال ا ه نور العين من آخر الفصل التاسع والاربعين

شامی (1/405)میں ہے:

مطلب في التداوي بالمحرم قوله: (اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة: يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به، كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو عرف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاء للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل، وهذا لان الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع ا ه من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء، ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون، وإلا فجوازه باليقين اتفاق كما صرح به في المصفى اه. أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدل، لقول الامام: لكن قد علمت أن قول الاطباء لا يحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين، إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم. تأمل.

قوله: (وظاهر المذهب المنع) محمول على المظنون كما علمته.

قوله: (لكن نقل المصنف الخ) مفعول نقل قوله: وقيل يرخص الخ والاستدراك على إطلاق المنح، وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك. ونص ما في الحاوي القدسي: إذا سال الدم من أنف إنسان ولا ينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الاخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلا يرخص له ما فيه وقيل يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة، وهو الفتوى اه.

قوله: (ولم يعلم دواء آخر) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي، إلا أنه يفاد في قوله: كما رخص الخ لان حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط. قال: ونقل الحموي أن لحم الخنزير لا يجوز التداوي به وإن تعين، والله تعالى أعلم.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved