• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

کمیشن کی ایک صورت کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول اختیار کرناحدیث و سنت

  • فتوی نمبر: 5-133
  • تاریخ: 18 جولائی 2012

استفتاء

اس وقت مختلف بازاروں میں کمیشن ایجنٹ کے ذریعے فروخت کرنے کا ایک طریقہ بکثرت رواج پاچکا ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنی کوئی چیز مثلاً زمین یا موٹر سائیکل وغیرہ بیچنا چاہتا ہے تو ایجنٹ سے کوئی اجرت متعین کرنے کی بجائے یہ کہتا ہے کہ مجھے اس چیز کی اتنی قیمت مثلاً 25 ہزار چاہیے اس سے زائد جتنے میں بھی فروخت کر ے وہ پیسے تمہارا کمیشن ہوں گے۔

اصلاً حنفی کے مطابق تو یہ صورت ناجائز ہے۔ جیسا کہ   "النتف في الفتاوى” میں مذکورہے:

و الخامس إجارة السمسار لا يجوز ذلك و كذلك لو قال بع هذا الثوب بعشرة دراهم فما زاد فهو لك و إن فعل فله أجر المثل.

ادھر دلال کی اجرت بھی اصلاً فقہ حنفی میں ناجائز تھی لیکن کثرت تعامل کی وجہ سے جواز دیا گیا۔ جیسا کہ شامی میں ہے:

في الحاوي سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال: أرجوا أنه لا بأس به وإن كان فاسداً في الأصل لكثرة التعامل و كثير من هذا غير جائز، فجوزه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام.

لہذا اب جب کہ یہ معاملہ بکثرت رواج پاچکا، اس کا عرف اور تعامل ہوچکا، مفضی الی النزاع بھی نہیں کیونکہ ایجنٹ سوچ سمجھ کے مارکیٹ کی صورت حال دیکھ کر ہی حامی بھرتا ہے تو اس کے جواز کی گنجائش ہونی چاہیے۔ مزید برآں کئی جلیل القدر ائمہ خصوصاً امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی اس کے جواز کے قائل ہیں۔ جیسا کہ آگے حوالوں میں آرہا ہے۔

(۲)في الصحيح للبخاري رحمه الله، أجر السمسرة

فقال ابن عباس رضي الله عنه لا بأس بأن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا و كذا فهو لك.

و قال ابن سيرين رحمه الله إذ قال بعه بكذا و كذا فما كان من ربح فهو لك أو بيني و بينك فلا بأس به و قال النبي صلى الله عليه و سلم السلمون عند شروطهم.

(۳)في فتح الباري تحته:

و قال ابن عباس رضي الله عنه لا بأس بأن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا و كذا فهو لك. وصله ابن أبي شيبة من طريقه عطاء نحوه هذه أجر سمسرة أيضاً لكنها مجهولة و لذلك لم يجزها الجهمور، و قالوا إن باع له على ذلك فله أجر مثله و حمل بعضهم إجازة ابن عباس رضي الله عنه على أنه جرى مجرى المقارض. و بذلك أجاب أحمد و اسحاق رحمهما الله و نقل ابن تين رحمه الله أن بعضهم شرط في جوازه أن يعلم الناس ذلك الوقت أن ثمن السلعة يساوي أكثر مما سمى له و تعقبه بأن الجهل بمقدار الأجرة باق، قوله ( قال ابن سيرين ) إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فلك أو بيني و بينك فلا بأس به … و هذا أشبه بصورة المقراض من السمسار.

(٤)في عمدة القاري تحته:

أما قول ابن عباس رضي الله عنه و ابن سيرين رحمه الله فأكثر العلماء لا يجوزون هذا البيع و ممن كرهه الثوري رحمه الله والكوفيون و قال الشافعي  و مالك رحمهما الله لا يجوز فإن باع فله أجر مثله و أجازه أحمد و اسحاق رحمهما الله و قالا هو من باب القراض و قد لا يربح المقارض.

(۵)في مصنف عبد الرزاق ۸/ ۳۷۷ :

أخبرنا عبد الرزاق قال أخبرنا معمر عن الزهري و قتادة و أيوب و ابن سيرين رحمهم الله كانوا لا يرون في بيع القيمة بأساً أن يقول بع هذا بكذا و كذا فما زاد فلك.

و أخبرنا عبد الرزاق قال: أخبرنا الثوري عن جابر عن الشعبي رحمه الله في رجل يقول بع هذا الثوب و كذا و كذا، فما زاد فلك. قال: لا بأس به.

(٦)في المحرر في الفقه لابن تيميه رحمه الله :

إن قال بعه بعشرة فما زاد فهو لك جائز.

(۷)في منار السبيل:

إن قال: بع هذا بعشرة فما زاد فهو لك صح البيع و له الزيادة نص عليه أحمد رحمه الله فقال هل هذا إلا كالمضاربة و هو قول اسحاق و غيره.

(۸)مولانا اعجاز احمد صمدانی مدظلہم نے اپنی کتاب مالی معاملات پر غرر کے اثرات میں صفحہ 94 پر دو وجہوں سے عدم جواز کو راجح لکھا ہے:

1۔  اجرت نہ صرف مجہول بلکہ غیر یقینی ہے کہ شاید وکیل کو اپنی جیب سے دینا پڑے۔

2۔ مضاربت میں تو رب المال کا نفع اور مضارب کی محنت ضائع ہوتی ہے۔ جبکہ یہاں رب المال کا نفع تو محفوظ اور دلال کی اجرت ضائع ہوتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ائمہ اربعہ میں سے کسی کا قول لینے میں یہ شرط ہونی چاہیے کہ وہ قول فی الجملہ فقہی بنیاد رکھتا ہو۔ امام احمد رحمہ اللہ نے وکالت بالاجرة کے مسئلے کو مضاربت بتایا ہے حالانکہ وہ کسی بھی طرح سے مضاربت نہیں بنتا کیونکہ (1) مالک نے دوسرے کو اپنا مال فروخت کرنے کو کہا تجارت کرنے کے لیے نقدی نہیں دی، (2) مضاربت میں نفع میں شرکت ہوتی ہے جبکہ یہاں نفع میں شرکت مفقود ہوسکتی ہے یعنی جب وکیل نے مالک کی بتائی ہوئی قیمت پر ہی فروخت کیا ہو چونکہ یہ اجرت پر وکالت بیع ہے اور اجرت مجہول ہے اور ہوسکتا ہے کہ اجرت سرے سے مفقود رہے اس لیے یہ اجرت پر وکالت نہ رہے گی خواہ اس کا عرف ہی ہوجائے لہذا یہ جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی نے ایسا معاملہ کر لیا ہو اور وکیل نے بیع کردی ہو تو وکیل کو اجرت مثل ملے گی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved