• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

امام اور مقتدیوں کانمازکے رکعات کی تعداد میں اختلاف ہوجائے تو کس کےقول کا اعتبار ہوگا؟

استفتاء

مفتی صاحب میں نے ظہر کی نماز پڑھائی نماز پڑھانے کے بعد بعض لوگوں نے کہا کہ آپ نے تین رکعات پڑھائی ہیں حالانکہ مجھے پکا یقین ہے کہ میں نے پوری چار رکعات ہی پڑھائی ہیں اور بعض لوگ بھی میری بات کی تائید کرتے ہیں ان کو بھی یقین ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ آپ نے چار رکعات ہی پڑھائی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کن کے قول کا اعتبار ہوگاجبکہ میں نے نماز بھی دوبارہ پڑھادی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب امام کو اپنی بات پر یقین ہے اور بعض لوگ بھی ان کے ساتھ ہیں  تو امام کے قول کا  اعتبار ہوگانیز جب امام نے دوبارہ نماز پڑھادی توبھی کوئی مسئلہ نہیں،  نماز ہوگئی۔

البحر الرائق (2/ 193)میں ہے:

اختلف القوم قال بعضهم صلى ثلاثا وقال بعضهم صلى أربعا والإمام مع أحد الفريقين يؤخذ بقول الإمام وإن كان معه واحد،فإن أعاد الإمام الصلاة وأعاد القوم معه مقتدين به صح اقتداؤهم لأنه إن كان الإمام صادقا يكون هذا اقتداء المتنفل بالمتنفل وإن كان كاذبا يكون اقتداء المفترض بالمفترض إلى آخر ما في الخلاصة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved