- فتوی نمبر: 31-252
- تاریخ: 23 دسمبر 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > موسیقی و گانا بجانا
استفتاء
(1)امام غزالی ؒ نے احیاء العلوم میں موسیقی کو اسلام میں جائز قرار دیا ہے،(2) کچھ مذہبی سکالر جیسے جاوید غامدی اور ڈاکٹر شبیر وغیرہ بھی جائز مانتے ہیں،(3)طبی ڈاکٹر بھی نفسیاتی طور پر موسیقی کو فائدہ مند مانتے ہیں، (4)فلسفہ دان کہتے ہیں کہ بنانے والے نے ہر چیز میں موسیقی رکھی ہےجیسے پرندے ، پتے، ہوا لہٰذا انسان والی موسیقی گناہ کیسے ہوسکتی ہے؟(5)اکثر لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں موسیقی کی حرمت کی کوئی نص ظاہر نہیں۔ موسیقی کی حرمت اور ان سب دلائل پر مفصل گفتگو فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔امام غزالیؒ نے مطلقاً موسیقی کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ انہوں نے مندرجہ ذیل پانچ صورتوں میں موسیقی کو حرام قرار دیا ہے ۔
فأقول إنه يحرم بخمسة عوارض……
۱۔پہلی صورت: گانے والی وہ عورت ہو جس کی طرف دیکھنا جائز نہیں کیونکہ اس کے گانے میں فتنہ کا خوف ہے اسی طرح بے ریش لڑکا بھی عورت کے حکم میں ہے لہذا یہ صورت حرام ہے فتنہ کے خوف کی وجہ سے……………
العارض الأول أن يكون المسمع امرأة لا يحل النظر إليها وتخشى الفتنة من سماعها وفي معناها الصبي الأمرد الذي تخشى فتنته وهذا حرام لما فيه من خوف الفتنة وليس ذلك لأجل الغناء بل لو كانت المرأة بحيث يفتتن بصوتها في المحاورة من غير ألحان فلا يجوز محاورتها ومحادثتها ولا سماع صوتها في القرآن أيضاً وكذلك الصبي الذي تخاف فتنته
۲۔دوسری صورت:موسیقی میں شرابیوں اور مخنثین(جو کہ گانے میں مشہور ہوتے ہیں) کے آلات کا استعمال ہو ہو جیسےبانسریاں،اوتاراور باجے، ڈھول ……………
العارض الثاني في الآلة بأن تكون من شعار أهل الشرب أو المخنثين وهي المزامير والأوتار وطبل الكوبةفهذه ثلاثة أنواع ممنوعةوما عدا ذلك يبقى على أصل الإباحة كالدف وإن كان فيه الجلاجل وكالطبل والشاهين والضرب بالقضيب وسائر الآلات
۳۔تیسری صورت : موسیقی میں پڑھا گیا کلام بد گوئی،بے ہودگی،برائی، کسی متعین عورت کے اوصاف یا اللہ تعالیٰ رسولﷺیا صحابہ کرامؓ کی ذات پر جھوٹ پر مشتمل ہو بلکہ ایسا کلام سننا بالکل حرام ہے اگرچہ موسیقی کے بغیر ہو ………………..
العارض الثالث في نظم الصوت وهو الشعر فإن كان فيه شيء من الخنا والفحش والهجو أو ما هو كذب على الله تعالى وعلى رسوله صلى الله عليه وسلم أو على الصحابة رضي الله عنهم كما رتبه الروافض في هجاء الصحابة وغيرهم فسماع ذلك حرام بألحان وغير ألحان والمستمع شريك للقائل وكذلك ما فيه وصف امرأة بعينها فإنه لا يجوز وصف المرأة بين الرجال
۴۔چوتھی صورت :سننے والا ایسا جوان ہو کہ اس پرشہوت غالب ہو کیونکہ اس صورت میں کسی غیر متعین عورت کے اوصاف کو بھی وہ اپنی شہوت کی وجہ سے متعین عورت پر منطبق کر ے گا اور اس عورت کی طرف اس کی شہوت میں مزید اضافہ ہوگا۔
العارض الرابع في المستمع وهو أن تكون الشهوة غالبة عليه وكان في غرة الشباب وكانت هذه الصفة أغلب عليه من غيرها فالسماع حرام عليه سواء غلب على قلبه حب شخص معين أو لم يغلب فإنه كيفما كان فلا يسمع وصف الصدغ والخد والفراق والوصال إلا ويحرك ذلك شهوته وينزله على صورة معينة ينفخ الشيطان بها في قلبه فتشتعل فيه نار الشهوة وتحتد بواعث الشر
۵۔پانچویں صورت: سننے والا ایسا شخص ہو جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں مغلوب ہوکر نہ سن رہا ہو بلکہ اسے صرف موسیقی پسند ہو اور موسیقی سننا اس کی عادت ہو حتیٰ کہ اپنے اکثر اوقات موسیقی سننے میں ضائع کرتا ہو………”
العارض الخامس أن يكون الشخص من عوام الخلق ولم يغلب عليه حب الله تعالى فيكون السماع له محبوباً ولو غلبت عليه شهوة فيكون في حقه محظوراًولكنه أبيح في حقه كسائر أنواع اللذات المباحة إلا أنه إذا اتخذه ديدنه وهجيراه وقصر عليه أكثر أوقاته فهذا هو السفيه الذي ترد شهادته فإن المواظبة على اللهو جناية [احياء علوم الدين لللامام الغزالى رحمه الله، مطبوعه دار ابن حزم، ص:754،753]
2۔یہ ایسے لوگ نہیں جن کی بات دین میں کسی درجے میں بھی حجت ہو۔ جاوید غامدی کے بارے میں تفصیل جاننی ہو تو “تحفہ غامدی از ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحبؒ” کا مطالعہ کریں۔
3۔ان کی بات بھی دین میں حجت نہیں۔
4۔اول تو ان کی بات بھی دین میں حجت نہیں اور دوسرے انسانی موسیقی کو دیگر مخلوقات میں موجود موسیقی پر قیاس کرنا درست نہیں۔
5۔یہ بات قرآن اور اس کی وہ تشریح جو احادیث سے ثابت ہے اس سے ناواقفیت پر مبنی ہے ورنہ قرآن پاک کی سورت لقمان کی آیت نمبر (6)اور اس آیت کی تشریح سے متعلق جو احادیث آئی ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں بھی موسیقی کی حرمت کا ذکر ہے۔نیز قرآن میں موسیقی کی حرمت سے متعلق کوئی نص نہ بھی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ موسیقی جائز ہے کیونکہ جس طرح کسی چیز کا حلال یا حرام ہونا قرآن سے معلوم ہوتا ہےاسی طرح کسی چیز کا حلال یا حرام ہونا احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے اور احادیث میں موسیقی کی حرمت صاف طور پر مذکور ہے۔
قرآن کریم کی آیت
سورۃ لقمان میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
ومن الناس من یشتری لهو الحديث ليضل عن سبيل الله بغير علم ويتخذها هزوا اولئك لهم عذاب مهين (لقمان:6)
ترجمہ:بعض لوگ ایسے ہیں جو ان باتوں کے خریدار ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں، تا کہ بے سمجھے بوجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا ئیں اور اس راہ کی ہنسی اڑائیں ،ایسے لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال درج ذیل ہیں:
سنن الترمذی(رقم الحدیث:3216)میں ہے:
عن أبي أمامة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن، ولا خير في تجارة فيهن وثمنهن حرام»، وفي مثل ذلك أنزلت عليه هذه الآية {ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله} [لقمان: 6] إلى آخر الآية
ترجمہ:حضرت ابو امامہؓ رسول اللہﷺسےروایت کرتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا:”مغنیہ(گانا گانے والی)باندیوں کی خریدوفروخت نہ کرواور نہ انہیں گانا سکھاؤانکی تجارت میں کوئی خیر نہیں اور ان کی قیمت لینا حرام ہے اور اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی{ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله}
السنن الكبرى للبیہقی(رقم الحدیث:21004)میں ہے:
عن عطاء بن السائب، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس:{ومن الناس من يشتري لهو الحديث}[لقمان: 6] قال: “هو الغناء وأشباهه
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سےآیت”ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله” کے متعلق مروی ہے کہ”لہو الحدیث گانا اور اس قسم کی دوسری چیزیں ہیں”
روح المعانی(11/ 66)میں ہے:
ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها.
حضرت حسن بصریؒ سے مروی ہے کہ” لہو الحدیث ہر وہ چیز ہے جو تمہیں اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر سے غافل کردے،جیسے رات گئے تک قصےکہانیاں،لطیفہ گوئی اور خرافات اور گانا وغیرہ”۔
احادیث مبارکہ
صحيح بخاری(رقم الحدیث:5590)میں ہے:
حدثنا عبد الرحمن بن غنم الأشعري قال حدثني أبو عامر أو أبو مالك الأشعري والله ما كذبني سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «ليكونن من أمتي أقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف…….
ترجمہ:حضرت عبدالرحمٰن بن غنم سے روایت ہے کہ مجھے زید ابو عامر یا ابو مالک اشعریؓ نے بتایا کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ”عنقریب میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا،ریشم،شراب اور باجوں کو حلال سمجھیں گے۔
صحيح ابن حبان(رقم الحدیث:4949)میں ہے:
فقال: حدثني أبو مالك الأشعري، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: “يشرب ناس من أمتي الخمر، يسمونها بغير اسمها، يضرب على رؤوسهم بالمعازف والقينات، يخسف الله بهم الأرض، ويجعل منهم القردة والخنازير”
ترجمہ:حضرت ابو مالک اشعریؓ نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ”عنقریب میری امت کے کچھ لوگ شراب پیئں گے اور اس کا نام بدل دیں گے،ان کے سروں پر آلات موسیقی بج رہے ہوں گے اور گانے والیاں ہوں گی، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو زمین میں دھنسا دے گااور ان میں سے بعض کو خنزیر اور بندر بنا دے گا۔
جمع الجوامع المعروف بالجامع الكبير للامام السیوطی ؒ(18/ 478) میں ہے:
عن على قال: نهى رسول الله – صلى الله عليه وسلم – عنضربالدف ولعب الصنج وصوت الزمارة
ترجمہ:حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے دف بجانے،چنگ سے کھیلنے اور بانسری بجانے سے منع فرمایا ہے۔
نيل الأوطار (8/ 113)میں ہے :
وأخرج أيضا من حديث أبي هريرة أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: استماع الملاهي معصيةوالجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر
ترجمہ:حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آلات لہو کو سننا معصیت ہے،ان کے پاس بیٹھنا فسق ہے ،اور اس سے لطف اندوزی کفر ہے۔
عمدة القاری شرح صحيح البخاری(6/ 271)میں ہے:
وفي فردوس الأخبار ” عن جابر رضي الله تعالى عنه أنه قال إحذروا الغناء فإنه من قبل إبليس وهو شرك عند الله ولا يغني إلا الشيطان.
ترجمہ: حضرت جابرؓ کا قول ہے:”گانے سے بچو،اس لیے کہ وہ ابلیس کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کے نزدیک یہ شرک ہے ،اور گانا شیطان کے سوا کوئی نہیں گاتا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved