• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

امام کافرض پڑھنے کے بعد اسی جگہ سنت پڑھنا

استفتاء

کیا امام صاحب فرض پڑھنے کے بعد اسی مصلی(جائے نماز)پر سنت یا نفل نہیں پڑھ سکتے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

امام کے لیے اگر فرض نماز کے بعد سنتوں کی ادائیگی کے لیے الگ جگہ (دائیں، بائیں یا آگے پیچھے)ہوجانے کی سہولت ہو تو سنتیں اور نوافل الگ جگہ پر پڑھنا مستحب ہے۔ اور یہ استحباب اس بنا پر ہے کہ نماز پڑھنے والے کے لیے دو مقام گواہ بن جائیں،یابعدمیں آنےوالےکویہ شبہ نہ ہوکہ جماعت ہوگئی ہےکہ نہیں،یا فرائض اورنوافل میں امتیاز ہوجائے ۔ لیکن اگر جگہ موجود نہ ہو یا مجبوری ہو یا نماز کے بعد دعا وغیرہ کی وجہ سے فاصلہ ہوچکا ہو تو امام نماز سے فارغ ہوکر اپنےاسی مصلی پر سنتیں اور نوافل ادا کرسکتا ہےجس پراس نےفرض پڑھےہیں اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع – (2 / 135)میں ہے:

(وإن) كانت صلاة بعدها سنة يكره له المكث قاعدًا، وكراهة القعود مروية عن الصحابة رضي الله عنهم روي عن أبي بكر وعمر رضي الله عنهما أنهما كانا إذا فرغا من الصلاة قاما كأنهما على الرضف؛ ولأنّ المكث يوجب اشتباه الأمر على الداخل فلايمكث ولكن يقوم ويتنحى عن ذلك المكان ثم يتنفل، لما روي عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: {أيعجز أحدكم إذا فرغ من صلاته أن يتقدم أو يتأخر}، وعن ابن عمر رضي الله عنه أنه كره للإمام أن يتنفل في المكان الذي أمّ فيه؛ ولأنّ ذلك يؤدي إلى اشتباه الأمر على الداخل فينبغي أن يتنحى إزالةً للاشتباه، أو استكثارًا من شهوده على ما روي أن مكان المصلي يشهد له يوم القيامة.

فتاوی شامی (1 / 531)میں ہے:

وفي الجوهرة: ويكره للإمام التنفل في مكانه لا للمؤتم، و قيل: يستحب كسر الصفوف. وفي الخانية: يستحب للإمام التحول ليمين القبلة يعني يسار المصلي لتنفل أو ورد. وخيره في المنية بين تحويله يمينًا وشمالاً وأمامًا وخلفًا وذهابه لبيته واستقباله الناس بوجهه ولو دون عشرة ما لم يكن بحذائه مصل ولو بعيدًا على المذهب.

 (قوله: يكره للإمام التنفل في مكانه) بل يتحول مخيرًا كما يأتي عن المنية، وكذا يكره مكثه قاعدًا في مكانه مستقبل القبلة في صلاة لا تطوع بعدها، كما في شرح المنية عن الخلاصة، والكراهة تنزيهية كما دلت عليه عبارة الخانية۔۔۔(قوله:لتنفل أو ورد)۔۔۔۔۔إن كان في صلاة لا تطوع بعدها، فإن شاء انحرف عن يمينه أو يساره أو ذهب إلى حوائجه أو استقبل الناس بوجهه، وإن كان بعدها تطوع وقام يصليه يتقدم أو يتأخر أو ينحرف يمينًا أو شمالاً أو يذهب إلى بيته فيتطوع ثمة ا هـ.

فتاوی دارالعلوم دیوبند(4/165) میں ہے :

اب اصل علت ارتفاع اشتباہ ہے، اور یہ بہتر ہے کہ بصورتِ اشتباہ علیحدہ ہوکر سنن اور نوافل پڑھے، لیکن اس مصلی پر پڑھے تو یہ بھی درست ہے، لأن بالسلام یحصل الفصل، اور جو اصلی علت احادیث میں مذکورہے کہ خلط فرائض بالنوافل واحتمال گمان زیادۃ فریضۃ ، وہ اب باقی نہیں ہے۔

کفایت المفتی(3/313)میں ہے:

فرض کی جگہ سے علیحدہ ہو کر سنن ونوافل پڑھنے کا استحباب اس بنا پر ہے کہ نماز پڑھنے والے کے لئے دو مقام گواہ بن جائیں یا فرائض ونوافل میں امتیاز ہوجائے اور اس بنا پر یہ استحباب مسجد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ مکان  ومسجد دونوں میں پایا جائے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved