استفتاء
گذارش ہے کہ ہماری مارکیٹ میں متعدد مساجد ہیں۔ نماز پڑھنے کے لیے کسی ایک مسجد کی تعیین مشکل ہے۔ بہت سی مسجدوں میں ائمہ کرام رکوع سے اٹھتے وقت تکبیر مختلف اوقات میں کہتے ہیں۔ بعض رکوع سے تسمیع کہتے ہوئے اٹھتے ہیں، بعض درمیان میں کہنا شروع کرتے ہیں، اور بعض رکوع سے سیدہا کھڑے ہونے کے بعد تسمیع کہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ہم جماعت میں اس وقت شریک ہونا چاہیں کہ جب امام رکوع میں ہوں اور ہمارے رکوع میں جاتے ہی امام صاحب نے تکبیر کہی ہو، تو ہم کیا کریں؟ اگر ہمیں امام نظر آ رہے ہوں تو ہم دیکھ کر نماز شروع کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات امام صاحب نظر نہیں آرہے ہوتے۔ اور بعض اوقات ہمیں کسی امام صاحب کا اندازہ ہوتا ہے، لیکن بر وقت یاد نہیں آتا کہ یہ کیا کرتے ہیں۔ تو ہم رکوع میں جماعت کے ساتھ شامل ہو جائیں، پھر وہ رکعت شمار کریں یا نہ کریں؟ یا امام صاحب کے کھڑے ہونے کا انتظار کریں؟
نوٹ: حالات ایسے ہیں کہ ہم کسی امام سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر انتظامیہ کو کچھ کہتے ہیں تو لوگوں کو مسجد میں فساد پھیلانے کا نیا شغل ہاتھ آتا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اصل ضابطہ تو یہ ہے کہ جو شخص امام کے رکوع سے سیدھا کھڑے ہونے یا اقرب الی القیام ہونے سے پہلے امام کے ساتھ رکوع
میں شامل ہو جائے تو اس کی یہ رکعت شمار ہو گی۔ ورنہ یہ رکعت شمار نہ ہو گی۔
لہذا اس ضابطے کے پیش نظر آپ یہ دیکھ لیں کہ اگر آپ کا امام آپ کے غالب گمان کے مطابق آپ کے رکوع میں جانے سے پہلے سیدھا کھڑا ہو گیا ہو یا اقرب الیٰ القیام ہو گیا ہو تو آپ کو یہ رکعت نہیں ملی۔ اور اگر آپ کے غالب گمان کے مطابق آپ کے رکوع میں جانے کے وقت امام ابھی اقرب الیٰ القیام نہیں ہوا تھا تو آپ کو یہ رکعت مل گئی۔
فتاویٰ شامی میں ہے (2/ 624،623):
و لو اقتدى بإمام راكع فوقف حتى رفع الإمام رأسه لم يدرك المؤتم الركعة لأن المشاركة في جزء من الركن شرط و لم توجد فيكون مسبوقاً فيأتي بها بعد فراغ الإمام. قال الشامي تحت قوله (فوقف) و كذا لو لم يقف بل انحط فرفع الإمام قبل ركوعه لا يصير مدركاً لهذه الركعة مع الإمام، فتح. و يوجد في بعض النسخ فوقف بلا عذر أي بأن أمكنه الركوع فوقف و لم يركع، و ذلك لأن المسألة فيها خلاف زفر فعنده إذا أمكنه الركوع فلم يركع أدرك الركعة لأنه أدرك الإمام فيما له حكم القيام. و قوله (لأن المشاركة) أي أن الاقتداء متابعة على وجه المشاركة و لم يتحقق من هذا مشاركة لا في حقيقة القيام و لا في الركوع.
قال الرافعي: قوله (و كذا لو لم يقف الخ) (في البناية) ما نصه في جامع التمرتاشي ذكر الجلابي في صلاته أدرك الإمام في الركوع فكبر قائماً ثم ركع أو شرع في الانحطاط و شرع الإمام في الرفع اعتدبها و قيل لو شاركه في الرفع قيل إن كان إلى القيام أقرب لا يعتد و الأصح أنه يعتد إذا وجدت المشاركة قبل أن يستقيم قائماً و إن قل و عن أبي يوسف قام مسرعاً فلم يستتم حتى كبر له لم يجزه و في النوازل إن كان إلى القيام أقرب جاز و إن كان إلى الركوع أقرب لا يجوز، و بهذا يعلم أن ما ذكره عن الفتح خلاف الأصح إلا أن يحمل قوله فرفع الإمام الخ على ما إذا استتم قائماً. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved