استفتاء
امام صاحب نے عشاء کی نماز پڑھائی پہلی اور دوسری رکعت میں تلاوت مسنون کے بعد اور رکعت پوری پڑھانے کے بعد تیسری رکعت کا قیام وسجود صحیح کیا مگر تیسری رکعت کے بعد آخرمیں یعنی بعد دو سجدوں کے بیٹھ گئے(چند معمولی ساعت کے لئے) 5 سیکنڈ تک (تین دفعہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار بیٹھ گئے تھے) پیچھے مقتدی حضرات بھی بیٹھ گئے ایک نمازی کھڑا ہوگیا اور کھڑے کھڑے اس نے "اللہ اکبر”کہاجس کو امام صاحب سن کر کھڑے ہوگئے اوراس کے بعدچوتھی (یعنی آخری رکعت ) میں امام صاحب نے تشہد پڑھ کر سجدہ سہو کیا، یعنی السلام علیکم ورحمة اللہ کے الفاظ کہے اورایک سجدہ کیا اور تشہد پڑھنے بیٹھ گئے حالانکہ انہیں سجدہ سہو کرنے کے لئے دو سجدے کرنے چاہیئے تھے لیکن انہوں نے ایک ہی سجدہ کیا پیچھے دوسری صف میں سے ایک نمازی نے لقمہ دیا "اللہ اکبر” یعنی دو سجدے کرنے ہیں، مگر انہوں نے ایک ہی سجدہ کیا اور نماز مکمل کرنے کے بعدسلام پھیر دیا پوچھنے پر بتایا (تیسری رکعت میں) میں بھول گیاتھا بیٹھنا ہے یا کھڑے ہونا ہے میں نے (التحیات للہ) پڑھی ہی نہیں رکعت کی بھول پر سجدہ سہو ہوتا ہی نہیں ، لہذا آپ سب حضرات کی نماز ہوگئی۔
دوسرے دن بعد میں نمازی حضرات نے پوچھا کہ آپ نے جو ایک سجدہ سہو کیا ۔حالانکہ دو کرنے چاہئے تھے(التحیات للہ)پڑھ کرایک سلام پھیرا ، السلام علیکم ورحمة اللہ کہا ، ایک سجدہ کیا، (التحیات للہ)دوبارہ پڑھی توکیا یہ تینوں عمل عمل کثیر میں نہیں آتے؟کیا اس زائد عمل پر سجدہ سہو نہیں ہوتا؟ (پہلی غلطی تیسری رکعت میں بیٹھنا)اس پر تو سجدہ سہو نہ تھا مگر اس عمل پر بھی ایک سجدہ سہو کیا، حالانکہ دو ہوتے تھے ۔اور اب یہ جو عمل زائد ہوا ہے اس کے اوپر سجدہ سہو نہیں ہوتا؟ توفر مانے لگے کہ میں نے ایک رکن مکمل ادا کیا ہی نہیں یعنی دوسجدے کئے ہی نہیں ۔لہذا آپ کی نماز عشاء ہوگئی۔
بندہ کا مسئلہ کا جاننا صرف اور صرف اپنی اور باقی نمازیوں اور امام صاحب سمیت سب کی نماز کو بچانا مقصود ہے، نہ کہ کسی کی تذلیل۔ مہربانی فرماکر قرآن و حدیث اور فقہاء امت کی آراء اس کے متعلق واضح فرمادیں اور نماز کے اد اہونے یا نہ ہونے کے شبہ سے آگاہ کریں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
تیسری رکعت کے بعداتنی دیر بیٹھنا کہ جتنی دیر میں باآسانی تین درفعہ "سبحان اللہ” کہا جا سکے اس سے سجدہ سہو لازم آجاتاہے۔لہذا مذکورہ صورت میں امام پر سجدہ سہو لازم تھا۔اور سجدہ سہو کے لئے دو سجدے ضروری ہیں، چونکہ امام نے ایک سجدہ سہو کیا ہے اس لئے یہ سجدہ سہو شرعاً معتبر نہیں اور نماز میں جو کمی واقع ہوئی تھی ۔اس کی تلافی نہیں ہوئی۔اس لئے ضروری ہے کہ جو لوگ اس نماز میں شریک تھے وہ سب اپنی نماز لوٹائیں۔
قال الحصكفيؒ في واجبات الصلوة: ترك قعود قبل ثانية أو رابعة وكل زيادة تتحلل بين الفرضين وكذاالقعدة في آخر الركعة الأوليٰ أو الثالثة فيجب لتركها ويلزم من فعلها ايضاً تأخير القيام إلی الثانية أو الرابعة عن محله وهذاإذاكانت القعدة طويلة أما الجلسة الخفيفة التي استحبها الشافعي فتركها غير واجب عندنا( 2/201 )
وتأخير قيام إلی الثالثة علی التشهد بقدر ركن و قيل بحرف وفی الزيلعي الأصح وجوبه بأللهم صل علی محمد./شامي 2/ 257
قال فی الحلبي الكبير والحكم الواجب بالسهو إنما هو سجدتان لا واحدة إلا أن المصدر إذا لم يقصد بل العدد يطلق علی القليل والكثير./كبيري 455
ولها واجبات لا تفسد بتركها وتعاد وجوباً فی العمد والسهو إن لم يسجد له وإن يعد ها يكون فاسقاً آثماً وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها./شامي 2/ 182
© Copyright 2024, All Rights Reserved