• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

امام سے متعلق ایک سوال

استفتاء

یہ کہ  ایک مسجد سے ملحقہ مکان کے مالک نے اپنے 10مرلے مکان میں سے 2مرلے زمین تقریباً 36سال قبل مسجد کو بذریعہ منتظمہ وقف کر دی ہوئی ہے۔

  1. یہ کہ مذکورہ ملحقہ مکان کے مالک نے بقیہ 8مرلے بھی فروخت کرنے کا ارادہ کیا تو یہ تجویز سامنے آئی کہ مذکورہ ملحقہ مکان کے بقیہ 8مرلے میں سے 3مرلے ملحقہ مسجد میں بذریعہ منتظمہ وقف کر لیے جائیں گے۔ جب کہ 5مرلے پر پیش امام مسجد اپنے ذاتی ذرائع /رقم سے خرید کر اپنا ذاتی مکان تعمیر کریں گے۔ اس تجویز سے منتظمہ مسجد اور پیش امام مسجد متفق ہوئے۔ لہذا مسجد کی منتظمہ نے بمد عطیات مطلوبہ رقم اکٹھی کی اور اسی طرح پیش امام مسجد نے بھی اپنے حصے کی رقم اکٹھی کی اور یوں کلہم زرثمن فروخت کنندہ کے حوالے کی گئی۔
  2. یہ کہ بوقف رجسٹری دستاویزات، مامور ملازمت پیش امام نے ساز باز کرکے مذکورہ ملحقہ مکان کے بقیہ 8مرلے اور بیشترازیں مسجد میں شامل 2مرلے یعنی کل 10مرلے کی دو رجسٹریاں(5مرلے+5مرلے) اپنے ذاتی نام پر کروالیں۔
  3. یہ کہ اب مامور ملازمت پیش امام کو جب کہا جاتا ہے کہ اس غلطی/ جعلسازی کا ازالہ کرتے ہوئے صرف 5مرلے کی رجسٹری اپنے نام رکھ کر بقیہ تمام زمین بذریعہ منتظمہ مسجد کے نام وقف کر دو تو وہ ایسا کرنے سے عملاً انکاری ہیں۔

دریں حالات استفتاء ہے کہ آیا مامور ملازمت پیش امام کی واضح دھوکہ دہی و جعلسازی کا ارتکاب کرنے کے بعد ان کی اقتداء میں پنج وقتہ نماز پڑھا جانا شریعت اسلام میں جائز ہے؟

اور آیا ایسے پیش امام کو پنج وقتہ صلوٰۃ کے فرائض منصبی کی ادائیگی پر بدستور قائم رکھنا جائز ہوگا؟

امام صاحب کا بیان:

  1. مسجد کے ملحقہ مکان کے ساتھ سابقہ مالک نے اپنے دس مرلہ مکان میں سے 2مرلہ زمین تقریباً 36سال سے پہلے مسجد کو زبانی وقف کر دی اور رجسٹری مسجد کو نہ دی۔
  2. مذکورہ ملحقہ مکان کے بارے میں مسجد کے کجھ نمازی حضرات (ب********) نے باہمی مشورہ کرکے مذکورہ مکان مالک سے خرید و فروخت کے متعلق بات چلائی اور مسجد کمیٹی سے مشورہ کیا انہیں خریدنے میں آمادگی ظاہر کی۔ مذکورہ تینوں حضرات نے بیس لاکھ روپے بیعانہ 2016ء میں مالک مکان کو ادا کر دیا اور مسجد کمیٹی سے اس بیعانہ کا ذکر کیا تو مسجد کمیٹی نے کہا زمین کی خریداری میں ہم کوئی تعاون نہیں کر سکتے۔ لہٰذا آپ جانیں اور آپ کا کام تو مذکورہ تینوں حضرات بڑے پریشان ہوئے۔ پھر بھائی** صاحب نے کہا کوئی بات نہیں ہم خود کوشش کرکے اس کام کو اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر پورا کرتے ہیں تو بھائی **** نے ستر لاکھ روپے اور مفتی صاحب نے اپنا ذاتی مکان فروخت کرکے پچیس لاکھ روپے اور*** صاحب نے پندرہ لاکھ روپے اور تقریباً پندرہ لاکھ روپے کی مختلف نمازی حضرات نے معاونت کی بھائی** جوکہ اس جگہ کے مرکزی خریدار ہیں انہوں نے خریدتے وقت کہا جتنی جگہ مسجد کی دیوار سیدھی کرنے اور اس میں توسیع کرنے کے بعد باقی بچے گی اس پر مفتی صاحب کی ذاتی رہائش بنے گی یہ بات مسجد کمیٹی کے روبرو کی گئی تو اس وقت نمازی حضرات و مسجد کمیٹی ممبران میں سے کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بھائی**صاحب نے مکمل رقم کی ادائیگی کے بعد اپنی صوابدید پر تمام جگہ مفتی صاحب کے نام 2017ء کو رجسٹری کروائی۔
  3. مسجد کی دو مرلہ زمین سابقہ مالک مکان نے جو وقف کی تھی اس کی رجسٹری نہیں ہوئی تھی مذکورہ مالک مکان نے **** صاحب جو کہ مرکزی خریدار ہیں ان کو کہا کہ آپ 8مرلہ کے ساتھ 2مرلے وقف زمین جو 36سال پہلے ہوئی تھی اس کی رجسٹری بھی لے لیں اس طرح **ہ صاحب نے 10مرلہ کی دو رجسٹریاں بنوا کر***صاحب امام و خطیب مسجد ہذا کو قابل اعتماد سمجھتے ہوئے کے نام کر دی مسجد کی توسیع اور مفتی صاحب کا گھر ان جگہوں پر مکمل ہوگیا۔ 2019ء کے آخر میں مسجد کمیٹی کے کچھ ممبران نے کہا اس توسیع شدہ مسجد کے حصہ کو وقف کیا جائے تو مفتی صاحب نے 500مالیتی کے اشٹام پر مسجد کے توسیع شدہ حصہ کو وقف کر دیا جو کہ لف ہے۔
  4. مسجد کمیٹی کے کچھ ممبران نے اپنے ذاتی عناد کی وجہ سے شور و غل شروع کیا کہ مفتی صاحب نے مسجد کی زمین جعل سازی کرکے اپنے نام کروائی ہے اور مفتی صاحب کے خلاف مختلف مسالک کے دار الافتاء میں استفتاء بھی بھیجے جس میں ایک سوال کی کاپی لف ہے۔ اور دوسرے ادارے کو بھی اسی طرح کا سوال بھیجا گیا ہے جس میں انہوں نے حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے غلط بیانی سے کام لیا۔
  5. اب مسجد کمیٹی کا اصرار ہے کہ توسیع شدہ مسجد کو مسجد کے منتظمین کے نام پر وقف کیا جائے لیکن بھائی ** اور مسجد کے نمازی حضرات اس فیصلہ پر متفق نہیں ہیں اس لیے کہ مسجد کے کچھ ممبران مفتی صاحب سے ذاتی عناد بھی رکھتے ہیں اور مسجد کے معاملات میں بھی مخلص نہیں ہیں۔ بھائی ***صاحب نے کہا ہے کہ رجسٹری مفتی صاحب کے نام پر ہی رہے گی اور اس فیصلہ پر آج تک قائم ہیں اب مسجد کمیٹی ممبران نے ان کی مخالفت شروع کر دی ہے اور مفتی صاحب پر یہ الزام لگارہے ہیں کہ یہ جگہ مفتی صاحب نے جعل سازی سے اپنے نام لگوائی ہے اب شرعی نقطہ نظر سے مفتی صاحب  پر جعل سازی کا الزام لگانا کہاں تک درست ہے شرعی رہنمائی درکار ہے۔

نوٹ:**** صاحب مرکزی خریدار مسجد زمین نے مسجد کے کمیٹی سے 20لاکھ روپے بطور قرض لئے تھے جو کہ مسجد کمیٹی کو واپس کر دیئے۔

بھائی *** صاحب نے بار بار مختلف میٹنگز میں مسجد کمیٹی کو باور کروایا کہ یہ جگہ مفتی صاحب کے نام پرہی رہے گی اور مرکزی خریدار بھائی *** صاحب نے مسجد کمیٹی کو بار بار کہا نمازیوں میں سے جس کسی نے ہمیں  رقم دی ہے اگر ان میں سے کسی کو بھی ہم تینوں(****) پر اعتماد نہیں ہے وہ اپنی رقم جب چاہے آکر واپس لے سکتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مفتی ** کے اقرار نامہ میں ہے کہ:

’’2مرلے مسجد  ہذا کو پہلے ہی وقف کیے جا چکے تھے، بعد ازاں ** صاحب نے پراپرٹی ہذا میں سے 3مرلے مزید مسجد  ہذا کو وقف کر دیئے ‘‘ اور مسجد کی انتظامیہ کا مطالبہ بھی صرف اتنا ہے کہ ’’امام صاحب 5مرلے کی رجسٹری اپنے نام رکھ کر بقیہ تمام زمین (جو کہ 5مرلے بنتی ہے) بذریعہ منتظمہ  مسجد کے نام وقف کر دے۔

لہٰذا مذکورہ صورت میں امام صاحب کو اپنے اقرار کی رُو سے اپنے 5مرلے کے علاوہ  بقیہ 5مرلے بذریعہ انتظامیہ مسجد کو وقف کردینے چاہئیں، بصورت دیگر وہ امامت کے مستحق نہیں۔

نوٹ: **نے اپنے بیان میں لکھا ہے کہ ’’مفتی صاحب نے 500مالیتی اشٹام پر مسجد کے توسیع شدہ حصہ کو وقف کر دیا ‘‘  جو کہ ساتھ لف ہے۔ جبکہ لف شدہ اشٹام پیپر اقرار نامہ ہے وقف نامہ نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved