- فتوی نمبر: 19-353
- تاریخ: 23 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > نماز > اذان و اقامت کا بیان > امامت و جماعت کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے دادا جی نے مسجد بنائی جس میں امامت میرے چاچو کرواتے ہیں اور جمعہ بھی پڑھاتے ہیں میرے چاچو کے چار مہینے لگے ہوئے ہیں اور حافظ بھی ہیں لیکن قرآن پکا یاد نہیں آج کل جمعہ پڑھاتے ہیں اور امامت کے لیے حافظ صاحب رکھے ہوئے ہیں اور مسجد کے گھر میں رہائش بھی ہے میرے اپنے کوائف یہ ہیں کہ میں حافظ بھی ہوں کئی مصلے بھی سنائے ہیں اور درجہ سادسہ کا طالب علم ہوں اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ امامت اور خطابت کے مشغلے کا مستحق شریعت کی رو سےمیں ہوں یا میرے چاچو جان ؟ جواب دے کر مشکور فرمائیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
استحقاق کی بات تقرری کے وقت دیکھی جاتی ہے لیکن جب کسی شخص کو امام مقرر کر دیا جائے تووہی امامت کا زیادہ حقدار ہے بشرطیکہ وہ نااہل نہ ہو مذکورہ صورت میں کیوں کے آپ کے چاچو پہلے سے امام مقرر ہیں اور وہ نااہل بھی نہیں لہٰذا انہیں بلاوجہ ہٹانا درست نہیں۔
(بذل المجہود(ج۱ص326)میں ہے:
(ولا يوم) بصيغة المجهول (الرجل في بيته ولا في سلطانه) (2) أي محل ولايته، أو في محل يكون في حكمه، ولذلك كان ابن عمر يصلي خلف الحجاج، وتحريره أن الجماعة شرعت لاجتماع المؤمنين على الطاعة وتألفهم وتوادهم، فإذا أم الرجل الرجل في سلطانه أفضى ذلك إلى توهين أمر السلطنة وخلع ربقة الطاعة، وكذا إذا أمه في قومه وأهله أدى ذلك إلى التباغض والتقاطع، فلا يتقدم رجل على ذي السلطنة لا سيما في الأعياد والجمعات، ولا على إمام الحي ورب البيت إلَّا بالإذن،
فتاوی شامی (354/2) میں ہے:
( و ) اعلم أن ( صاحب البيت ) ومثله إمام المسجد الراتب ( أولى بالإمامة من غيره ) مطلقا ( إلا أن يكون معه سلطان أو قاض فيقدم عليه ) لعموم ولایتھما۔
امداد الاحکام (1/505) ایک تفصیلی سوال کے جواب میں ہے :
احق بالامامت کو مقدم کرنا سنت مؤکدہ ہے یا مستحب اور غیر احق کو مقدم کرنے کا حکم؟
الجواب سنت یہ ہے کہ احق بالامامہ کو امام مقرر کیا جائے۔
جب کوئی شخص امام راتب مقرر ہو جائے بشرطیکہ وہ نا اہل نہ ہو تو پھر وہی احق بالامامت ہے گواس کے پیچھے اس سے افضل و اکمل موجود ہوں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved