- فتوی نمبر: 29-381
- تاریخ: 31 اگست 2023
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
مفتی صاحب میرے کچھ سوالات ہیں جن کے متعلق آپ سے شرعی راہنمائی درکار ہے ۔
1۔ انعامی بانڈز جو حکومت سے لیے جاتے ہیں کیا وہ شرعاً جائز ہیں ؟ کیونکہ انعامی بانڈز لاٹری کی طرح نہیں ہوتے بلکہ ان بانڈز پر لگائی گئی رقم محفوظ رہتی ہے اور اگر بانڈز پر انعام نہ بھی نکلے تب بھی بانڈ ز واپس کر کے اپنی رقم وصول کی جا سکتی ہے اور حکومت کی طرف سے رقم بھی متعین ہوتی ہے کہ پہلے نمبر والے کو اتنے پیسے ملیں گے اور دوسرے نمبر والے کو اتنے ملیں گے ۔اور جمع ہونے والے پیسوں سے حکومت کاروبار کرتی ہے ۔
2۔جتنے بھی حکومتی ادارے ہیں وہاں مساجد بھی ہوتی ہیں اور ان میں ائمہ کرام اور حفاظ بھی ہوتے ہیں انہیں جو تنخواہ وغیرہ ملتی ہے یا جو حکومتی اداروں میں ملازمین ہوتے ہیں انہیں جو تنخواہیں ملتی ہیں تو ایسی تنخواہوں کا کیا حکم ہے ؟ کیونکہ حکومتی اداروں میں جتنے بھی معاملات ہوتے ہیں وہ سب کے سب سودی ہوتے ہیں تو کیا ایسی صورت میں یہ تنخواہ لینا جائز ہے ؟
3۔سرکاری ملازمین جب ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو انہیں پنشن ملتی ہے کیا اس کا لینا جائز ہے ؟ کیونکہ ملازمین جو وقت دیتے ہیں اس کی تنخواہ وہ وصول کر لیتے ہیں تو پھر اس پنشن کا کیا حکم ہوگا ؟ کیونکہ یہ رقم بغیر کسی محنت کے حاصل ہوتی ہے تو کیا یہ سود ہے ؟ انعامی بانڈ زکی رقم بھی متعین ہوتی ہے اور اسی طرح ملازم کی تنخواہ بھی مقرر ہوتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ پنشن جائز ہے اور بانڈز ناجائز ؟
4۔ حکومت جو پنشن دیتی ہے وہ اس کٹوتی کے عوض نہیں ہوتی جو ماہانہ ہوتی ہے کیونکہ وہ تو بہت کم ہوتی ہے اور پنشن بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کٹوتی پر ملنے والی رقم تو جائز ہو گی لیکن زائد رقم کیسے جائز ہوگی ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔انعامی بانڈز شرعاً جائز نہیں، کیونکہ ان میں جوئے کی پوری حقیقت اگرچہ اس اعتبار سے نہیں پائی جاتی کہ اپنی اصل رقم ضائع ہونے کا اندیشہ ہو البتہ جوئے کی ظاہری صورت ضرور پائی جاتی ہے کہ انعام موہوم ہوتا ہے کہ کس کو ملے اور کس کو نہ ملےجبکہ جوئے جیسے معاملے کی ظاہری صورت سے بچنا بھی ضروری ہے نیز اگر جوا نہ بھی تسلیم کیا جائے تب بھی پرائز بانڈ جائز نہیں کیونکہ اس میں سود بھی ہوتا ہے اور سود اس طرح ہے کہ حکومت کو جب قرض کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس کے لیے انعامی بانڈز کی اسکیم جاری کرکے عام لوگوں سے قرضے وصول کرتی ہے اور ان کو ان قرضوں کی رسید کے طور پر بانڈز جاری کرتی ہے اور لوگوں کو قرضے دینے کے لیے آمادہ کرنے کے لیے موہوم انعام کا لالچ دیتی ہے جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ قرعہ اندازی کروائی جاتی ہے جس کا نام نکل آئے اس کو اپنی اصل رقم کے ساتھ زائد رقم بھی ملتی ہے ۔ یہ صورت قرض لے کر نفع دینے کی ہے جس کو حدیث مبارکہ میں سود کہا گیا ہے ۔ نیز اگرچہ عملاً سب کو قرض پر نفع نہیں ملتا لیکن عقد میں چونکہ سب کے ساتھ یہ طے کیا جاتا ہے کہ قرعہ اندازی کروا کر انعام دیا جائے گا اور اگر حکومت قرعہ اندازی نہ کروائے تو ہر شخص کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوتا ہے ۔ اس لیے جب معاہدہ سب سے ہو رہا ہے اور ہر ایک کو حکومت کے خلاف چارہ جوئی کا حق بھی ہے اس لیے بانڈز میں حکومت کا ہر ایک کے ساتھ سود کا معاملہ اور معاہدہ ہے البتہ سود کی ادائیگی قرعہ اندازی کے ساتھ مشروط کردی گئی ہے اور ہر کوئی اسی مشروط سود کی لالچ میں بانڈز خریدتا ہے۔
2۔حکومتی اداروں میں جتنے بھی معاملات ہوتے ہیں وہ سب کے سب سودی ہوتے ہوں یہ بات ہی درست نہیں اور اگر کچھ سودی معاملات بھی ہوں تو غالب غیر سودی ہوتے ہیں لہٰذا حکومتی اداروں میں ملازمین کا اپنے جائز کاموں کی تنخواہ لینا بلاشبہ جائز ہے۔
3۔ پنشن کا لینا جائز ہے اور اس کی دو وجہیں ہیں:
(۱)یہ پنشن کام کے دنوں کی اجرت ہے۔ا س صورت میں یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ یہ اجرت مجہول ہے اس کا جواب یہ ہے کہ عرف کی وجہ سے یہ جہالت چونکہ مفضی الی النزاع نہیں اس لیے قابل تحمل ہے۔
(۲) یہ انعام ہے اور ہدیہ ہے ۔ اس صورت میں یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ انعام یا ہدیہ کسی سے بزور قانون نہیں لیا جاسکتا جبکہ ملازم یہ پنشن بزور قانون لے سکتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس انعام اور ہدیے کا چونکہ گورنمنٹ کی طرف سے خود وعدہ کیا گیا ہے اور اس وعدے کے لالچ میں ملازم نے ملازمت کی ہے ۔ بعض صورتوں میں وعدے کو بزور قانون بھی پورا کروایا جاسکتا ہے لہٰذا اسی اصول کے تحت اس وعدے کو بزور قانون پورا کروایا جاسکتا ہے اور یہ بات اس کے ہدیہ ہونے خلاف نہیں، لہٰذا اگر یہ رقم بغیر محنت کے بھی ملتی ہے تو یہ سود نہیں جیساکہ ہدیہ بھی بغیر محنت کے ملتا ہے حالانکہ وہ سود نہیں۔ باقی پنشن میں اور انعامی بانڈز میں فرق یہ ہے کہ انعامی بانڈز میں جو رقم انعام کے نام سے ملتی ہے وہ چونکہ قرض کی بنیاد پر ملتی ہے اس لیے وہ سود ہے جبکہ پنشن کی رقم ملازم کی طرف سے کسی قرض کی بنیاد پر نہیں ملتی بلکہ ملازمت جوکہ ایک محنت ہے اس کی بنیاد پر ملتی ہے۔
4۔زائد رقم کے جائز ہونے کی وجوہات نمبر 3 کے ذیل میں واضح کردی گئی ہیں۔
بحوث فی قضایا فقہیہ معاصرۃ(2/159 -161)
يوجد في عصرنا نوع آخر من الجوائز، و هو ما يعطي لحاملي السّندات الحکوميّة (Prize Bonds) علي أساس القرعة والحکم الشّرعي لهذه الجوائز موقوف علي معرفة حقيقة هذه و حقيقتها: أن الحکومة ربما تحتاج إلي الاستقراض من عامّة الشّعب لمواجهة عجز ميزانيتها، فتعطي کل مُقرِض سنداً يمثِّل مديونية الحکومة تجاه حاملة، وإن هذا السّندات تکون ربوية في العادة، بحيث إن الحکومة تضمن لصاحبها أن تعيد إليه مبلغ القرض مع الفائدة الربويّة ولکن في بعض الأحيان تصدر سندات لا تشترط فيها الزيادة الربويّة لکلّ حامل السند، ولکن تلتزم الحکومة بتوزيع الجوائز علي حامليها علي أساس القرعة، فکلُّ من خرج اسمه في القرعة استحق جائزة ربما تکون أضعاف أضعاف ماکان يحصل عليه من الفائدة الربويّة في الأحوال العاديّة وقد يستدلُّ علي مشروعية هذه الجوائز، بأنَّ الحکومة لا تشترط إعطاء الزِّيادة لأحد من المقرضين حاملي السّند، فالعقد مع کل واحد من حملة السّند عقد قرض بدون فائدة، ثمَّ إنَّها تعطي هذا الجوائز علي أساس القرعة، فکانت تبرُّعًا من قبلها، فلا يلزم منه الرِّبا، لأنَّ الرِّبا ما هو مشروط في عقد القرض ولکن هذا الاستدلال غير صحيح:
أمّا أوّلاً: فلأنَّ الحکومة تلتزم بتوزيع الجوائز علي حملة السَّند، فالزِّيادة علي مبلغ القرض و إن لم تکن مشروطة لکل واحد من المقرضين، ولکنها مشروطة تجاه مجموعة المقرضين، لأن الحکومة تلتزم علناً عند إصدار هذه السّندات أنها توزّع هذا الجوائز، بحيث إذا امتنعت الحکومة من توزيع الجوائز، يحقُّ لکل مقرِض أن يطالبها بذلک في القضاء، فلا يمکنُ أن يقال: إنَّها زيادة غير مشروطة في العقد، فکلما أشترطت الزيادة في عقد القرض، صارت رباً
وأمّا ثانياً: فإن طبيعة هذه السَّندات لا تختلف عن السندات الربوية عموماً، وغاية ما تفعله الحکومات أنها بدلاً من إعطاء الفائدة إلي کل أحد من المقرضين، تجمع مبالغ الفوائد في وعاء واحد، وتوزَّعها علي مجموعة من المقرضين منتخبة علي أساس القرعة، فالعملية مبنيّة علي أساس المخاطرة في مبالغ الفوائد، ففائدة کل واحد أمَّا تضيع عليه، ومَّا تجلب مالاً أضعاف أضعاف الفائدة
بدائع الصنائع (7/ 395) میں ہے:
وأما الذي يرجع إلى نفس القرض فهو أن لا يكون فيه جر منفعة فإن كان لم يجز نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن قرض جر نفعا ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا لأنها فضل لا يقابله عوض والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض.
جواہر الفقہ(4/548)میں ہے:
ج: انعامی بانڈز میں یہ ہوتا ہے کہ بانڈ خرید نے والے ہر شخص کی رقم پر سود لگایا جاتا ہے، لیکن معینہ مدت پورے ہونے پر ہر شخص کا سود اسی کو دینے کے بجائے سود کی مجموعی رقم صرف ان افراد پر تقسیم کر دی جاتی ہے جن کا نام قرعہ اندازی میں نکل آئے ، لہذا جور رقم بانڈ پر انعام کے نام سے دی جاتی ہے وہ در حقیقت سود اور رباہے، فرق یہ ہے کہ عام حالات میں اتنی رقم پر جتنا سود ملتا، بانڈ کے انعام میں اتنے سود کے علاوہ بعض دوسرے افراد کی رقموں پر لگنے والا سود بھی شامل ہوتا ہے جو انعام یافتگان کو بذریعہ قمار دیا جاتاہے۔اس طرح انعامی بانڈز کے مروجہ طریقے میں سود کی رقم کو قمار کے ذریعہ تقسیم کیا جاتا ہے۔
مسائل بہشتی زیور(2/273) میں ہے:
اس کی حقیقت یہ ہے کہ حکومت عوام سے قرض لیتی ہے اور بانڈ کے نام سے قرض کی رسید جاری کرتی ہے اور لوگوں کو قرض دینے پر آمادہ کرنے کے لیے حکومت نے انعامی سکیم ساتھ نکالی ہے۔ موہوم انعام کے لالچ میں بانڈ خریدنا یہ جوئے کی صورت ہے اور شرط طے کر کے قرض پر انعام دینا یا لینا یہ سود ہے۔ غرض انعامی بانڈ کی سکیم بالکل حرام ہے اور انعامی بانڈ کی اس سے کم و بیش قیمت پر خرید و فروخت بھی سود ہے اور حرام ہے۔ لہذا انعامی بانڈ خریدنا اور اپنے پاس رکھنا نا جائز ہے۔
فتاویٰ محمودیہ (23/342) میں ہے:
سوال:1۔ پنشن ریٹائر ہونے کے بعد گورنمنٹ سے ملتی ہے، وہ ملازم کے لئے جائز ہے یا نہیں؟ اس کا کھانا کیسا ہے؟
2۔جو پنشن دینی اداروں میں ملازموں کو دی جاتی ہے، تو کیا وہ جائز ہے یانہیں؟
جواب :1۔یہ پنشن درست ہے، اس کا کھانا بھی درست ہے ۔
2۔یہ پنشن بھی درست ہے۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل (8/329) میں ہے:
ج… پنشن کی حیثیت ایک لحاظ سے عطیہ کی ہے، اس لئے جو معاملہ پنشنر اور حکومت کے درمیان طے ہوجائے وہ صحیح ہے، یہ جوا اور قمار نہیں۔
احسن الفتاویٰ(293/7)میں ہے:
مدت عمل میں عامل کے قویٰ میں اتنا انحطاط اور حاجات میں ایسا تعطل پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ معتد بہا مدت تعطیل کیے بغیرمستقبل میں کوئی کام نہیں کرسکتا،اس لیے ان ایام کی اجرت کے استحقاق کا اصل تعلق ماضی سے ہے،اسی لیے اختتام عمل کے بعد تعطیل مع مشاہرہ کا دستور پوری دنیا میں مروج ہے اور اس کا ہر جگہ عرف عام ہو چکا ہے………………….. چونکہ علت الحاق کی اصل بناء عمل ماضی ہے اس لیے قسم ثانی کا الحاق اقویٰ ہے اور اسی لیے پوری دنیا میں اس کا عرف عام ہو چکا ہے،پنشن کا قانون بھی اسی نظریہ کے تحت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved