- فتوی نمبر: 21-8
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات > مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
محترم مفتی صاحب !میری والدہ جمع کیےہوئے پیسوں کے بانڈز خریدلیتی ہیں اور مقررہ تاریخ سے پہلے کچھ منافع رکھ کر بیچ دیتی ہیں ۔کیا یہ ٹھیک ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اول تو انعامی بانڈز خریدنا ہی جائز نہیں اوراگر خرید ہی لیے ہیں تو ان پر نفع رکھ کرانہیں بیچنا جائز نہیں ،لہذا آپ کی والدہ کامذکورہ عمل جائزنہیں ۔
مسائل بہشتی زیور(2/273)میں ہے:
بانڈکی حقیقت یہ ہےکہ حکومت عوام سے قرض لیتی ہے اور بانڈ کے نام سے قرض کی رسید جاری کرتی ہے اور لوگوں کو قرض دینے پر آمادہ کرنے کے لیے حکومت نے انعامی سکیم ساتھ نکالی ہے ۔موہوم انعام کے لالچ میں بانڈ خریدنا جوئے کی صورت ہے اور شرط طے کر کے قرض پر انعام دینا یا لینا یہ سود ہے۔غرض انعامی بانڈ کی اسکیم بالکل حرام ہے اور انعامی بانڈکی اس سے کم و بیش قیمت پر خرید و فروخت بھی سود اور حرام ہے ،لہذا انعامی بانڈ اپنے پاس رکھنا ناجائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved