• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

انڈنٹر(ایجنٹ)کے ذریعے خریداری کا طریقہ کار

استفتاء

RLایک نیوٹراسوٹیکل اوردیسی ادویات کی مینوفیکچررکمپنی ہے،یہ خام مال، پیکنگ میٹیریل لاہور اورکراچی کے مختلف ڈیلرزسے پرچیز کرتی (خریدتی) ہے اور ادویات بناکر ملک کے مختلف شہروں میں فروخت کرتی ہے۔

RL کی طرف سے چائنہ اور جاپان وغیرہ کی کمپنی کا میٹیریل خریدتا جاتاتھا لیکن اب باہر کی کمپنیوں سے براہِ راست خریداری نہیں کی جاتی۔بلکہ درمیان میں ایجنٹ ہوتاہے جسے’’ انڈنٹر‘‘کہا جاتا ہے۔ جو مخصوص اجرت لیکر باہر سے آرڈر کے مطابق مطلوبہ میٹیریل خرید کر بھیج دیتا ہے۔

انڈنٹر کے ذریعے خریداری کا طریقہ کاریہ ہے کہ بعض اوقات RLکی طرف سے براہ راست چائنہ وغیرہ کی کمپنی سے ای میل کے ذریعے صرف ریٹ پوچھ لئے جاتے ہیںاور وہ مثلاً 10ڈالر ، یا12ڈالر فی کلو(Per KG) کے اعتبار سے ریٹ بتادیتی ہے اس کے بعد RL اِس انڈنٹر سے رابطہ کرتی ہے کہ فلاں کمپنی نے اس میٹیریل کا یہ ریٹ دیاہے توآپ اس سے اتنا اسٹاک منگوالیں، پھر وہ انڈنٹراُس کمپنی سے خودرابطہ کرتاہے کہ آپ سےRLکی اِس طرح بات ہوئی تھی اور آپ نے اُن کو یہ ریٹ دیاہے،اب ہمیں اتنا اسٹاک چاہیئے اس کے مطابق چائنہ والے وہ مطلوبہ اسٹاک ان کو بھیج دیتے ہیںاور پاکستان میں مال پہنچنے کے بعد انڈنٹرRLکو بتا دیتا ہے کہ آپ کا مال آ گیا ہے اور کسٹم کابل اتنا ہے( جس کی رسیدیں بھیج دیتاہے)اس کے مطابق RLکی طرف سے اُتنی رقم کسٹم والوں کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروادی جاتی ہے پھر بینک کوجو ادائیگی کی جاتی ہے اس کی سلپ(رسید) اِنڈنٹر کو بھیجی جاتی ہے،انڈنٹر وہ سلپ پورٹ پرکسٹم والوں کو جمع(Submit)کرواکے کسٹم والوں سے مال چھڑا کر RLکے ایڈریس پر گڈز کمپنیوں کے ذریعے بھیج دیتاہے۔

چائنہ یا جاپان کے سپلائرسے مال لے کر لاہور میں RLکی فیکٹری تک صحیح حالت میںمال پہنچانا:یہ ذمہ داری انڈنٹر کی ہوتی ہے،اور اس دوران تمام ترنقصان اُسی کے ذمے ہوتا ہے،چنانچہ سپلائر سے مال اُٹھاکروہاں کی پورٹ تک پہنچانااور جب مال کراچی پورٹ پرپہنچے تووہاں کسٹم والوں سے کلیئر کرواکےRL کو بھیج دینے تک کی ساری خدمات وہی سرانجام دیتا ہے۔

ان تمام خدمات کے عوض انڈنٹر کوطے شدہ اجرت دی جاتی ہے،اجرت طے کرنے کی دوصورتیں ہوتی ہیں،بعض اوقات پورے اسٹاک کے حساب سے اجرت طے کی جاتی ہے کہ جتناسامان منگوایا گیا ہے اس سارے اسٹاک کو کلیئر کرانے اور اس سے متعلقہ دیگر خدمات کے عوض ایک لم سم اجرت( مثلاً پچاس ہزار روپے)طے کردی جاتی ہے،جبکہ بعض اوقات جب سامان تھوڑا ہو تو فی پیس کے حساب سے ایک مخصوص رقم (مثلاً ایک ہزار روپے)بطور اجرت طے کی جاتی ہے اور انڈنٹر کی طرف سے بھیجا ہوا مال جب فیکٹری میںپہنچتا ہے تواسے چیک کرنے کے بعد اس کی اجرت ادا کردی جاتی ہے۔

1۔            انڈنٹر کو طے شدہ اجرت دیکر مذکورہ طریقے سے باہر سے مال منگوانے کا کیا حکم ہے؟

2۔            راستے میں کسی بھی نقصان کی تمام تر ذمہ داری انڈنٹر پر ڈالنے کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔            RLکاانڈنٹر کو مذکورہ تمام خدمات کے عوض لَم سَم اُجرت دینا یا فی پِیس کے حساب سے مخصوص اجرت دیکر مذکورہ طریقے سے مال منگوانا شرعاً درست ہے۔

2۔            انڈنٹرکی حیثیت اجیر مشترک کی ہے اورراستے میںمال کے ہلاک ہونے یاخراب ہونے کی صورت میںاجیر مشترک سے ضمان لینے(نقصان کی تلافی کروانے)میںیہ تفصیل ہے کہ اگرنقصان کسی ایسی ناگہانی آفت سے ہواہوکہ جس سے بچنا ممکن نہ ہو توایسی صورت میںانڈنٹر سے نقصان کی تلافی کرواناجائز نہیں،اسکے علاوہ نقصان کی تمام صورتوں میںحقیقی نقصان کے بقدراس سے تلافی کرواناجائز ہے۔

(۱)        الدرالمختاروحاشية ابن عابدين (۶/۶۳):

قال في التتارخانية:وفي الدلال والسمساريجب أجر المثل،وماتواضعواعليه أن في کل عشرة دنانير کذا فذاک حرام عليهم،وفي الحاوي:سئل محمدبن سلمة عن أجرة السمسار،فقال:أ رجوأ نه لا بأس به وان کان في الأصل فاسدا لکثرة التعامل وکثير من هذا غير جائز،فجوزوه لحاجة الناس اليه کدخول الحمام.

(۲) الفتاوي الهندية:(۴/۴۴۱):

واذاأخذالسمسارأجر مثله هل يطيب له ذلک تکلموا فيه قال الشيخ الامام المعروف بخواهر زاده يطيب له ذلک وهکذا عن غيره واليه أ شارمحمد رحمه الله تعالي في الکتاب هکذا في فتاوي قاضي خان.

(۳) تبيين الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشية الشلبي:(۴/۲۵۴) ميں هے:

ولأن الانسان قديعجزعن مباشرة التصرفات وعن حفظ ماله فيحتاج الي الاستعانة بغيره أشد الاحتياج فيکون مشروعا دفعا للحرج.

(۴)النتف في الفتاوي للسغدي:(۲/۵۷۵):

ولو استأجر السمسار شهرا ليبيع له أوليشتري بکذا من الاجر جاز ذلک۔

(۵)رد المحتار:(۶/۶۵):

(قوله:ولايضمن)اعلم أن الهلاک امابفعل الأجيرأولا،والأول امابالتعدي أولا،والثاني اماأن يمکن الاحترازعنه أولا،ففي الأول بقسميه يضمن اتفاقاً وفي ثاني الثاني لايضمن اتفاقاًوفي أوله لايضمن عند الامام مطلقاًويضمن عندهما مطلقاً ۔۔۔۔وبه يفتي احتشاماً لعمروعلي صيانة لأموال الناس۔

(۶) دررالحکام شرح مجلة الأحکام:(۱/۷۱۲،المادة:۶۱۱):

الأجير المشترک يضمن الضرروالخسائرالتي تولدت عن فعله ووصفه ان کان بتعديه وتقصيره أولم يکن۔۔۔۔۔لأن مايدخل تحت عقد الاجارةهو العمل السليم،وأما العمل الفاسد فلايدخل تحت الاجارة۔

وفيه ايضاً:والمستأجروالحالة هذه مخير،ان شاء ضمنه قيمته بحاله وهوغيرمعمول واعطاء أجرته، لأن الأجير لم يف منفعة بل أورث ضرراً’’ردالمحتار‘‘وان شاء ضمنه قيمته معمولاًوأعطاه أجر مثله ۔۔۔۔۔ اذا مزق القصار الثياب وهو يغسلها أوزلقت رجل الحمال وتلف الحمل يکون ضامناً ماأتلف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط: واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved