- فتوی نمبر: 29-314
- تاریخ: 02 ستمبر 2023
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ کے مالی حالات تنگ ہیں اور بندہ کے پاس ایک ملازمت آئی ہے جو ایک انشورنس کمپنی کی ہے۔ اس کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ سعودی عرب میں ہر ایک شخص کے لیے ہیلتھ انشورنس کرانی ضروری ہے۔ اب انشورنس کمپنی والوں کو ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جب کوئی مریض ہسپتال آتا ہے تو ڈاکٹر اسے کوئی ٹیسٹ یا دوا لکھ کر دیتا ہے۔ اس دوا دینے کے لیے یا ٹیسٹ کرنے کے لیے ہسپتال یا ٹیسٹ لیب کو انشورنس کمپنی سے دوا دینے کی یا ٹیسٹ کرنے کی اجازت لینی پڑتی ہے۔ انشورنس کمپنی میں بیٹھے ہوئے ڈاکٹر حضرات اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ اس مریض کو واقع میں تجویز شدہ دوا یا ٹیسٹ کی ضرورت ہے یا نہیں اگر ضرورت ہو تو وہ ڈاکٹر اس کی اجازت دے دیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ انشورنس کمپنی بھی اس ٹیسٹ کرنے کی یا دوا دینے کی بیشتر لاگت برداشت کرلیتی ہے ورنہ نہیں کرتی۔ اب سوال یہ ہے کہ بندہ کے لیے اپنے حالات کے پیش نظر اس انشورنس کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
وضاحت مطلوب ہے : اس انشورنس کمپنی میں آپ کیا کام کریں گے؟
جواب: میں ڈاکٹر ہوں اوربحیثیت ڈاکٹر میرا کام مختلف کیسز کو چیک کرنا ہوگا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مجبوری کی حالت میں انشورنس کمپنی میں کام کرنے کی گنجائش ہے البتہ ملازمت کےساتھ ہی یہ کام کرتے رہیں: (1) کسی دوسری نوکری وغیرہ کی سنجیدہ تلاش جاری رکھیں(2) جب تک مذکورہ نوکری کرنی پڑے اس وقت تک توبہ و استغفار بھی کرتے رہیں۔
توجیہ:انشورنس کمپنی کے ساتھ ڈاکٹر کا معاملہ عقد اجارہ ہے اور اس اجارہ میں معقود علیہ وقت ہے جس پر اجرت لینا جائز ہے البتہ چونکہ اس معاملہ میں ڈاکٹر انشورنس کمپنی کو اپنی خدمات فراہم کررہا ہے اس طرح سے کہ ڈاکٹر کی تصدیق کے بغیر کسی بھی مریض کی انشورنس جاری نہیں ہوتی اور نتیجہ کے طور پر ڈاکٹر بھی انشورنس کے معاملے میں معین و مددگار بنتا ہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے بینک میں کوئی ایسا عہدے دار ہو (مثلامنیجر)جس کے دستخط کے بغیر چیک کی رقم نہ ملتی ہو اور چیک میں سودی رقم بھی شامل ہوتی ہو۔لہذاس گناہ کے ارتکاب پر استغفار و توبہ کرنی چاہیے نیز ساتھ ہی اس چیز کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے کہ اس گناہ سے خلاصی نصیب ہو۔
نوٹ : یہ توجیہ اس تخریج پر مبنی ہے کہ ہیلتھ انشورنس میں سود ہوتاہے ،جیسا کہ عام طور سے سمجھا جاتاہے لیکن اگر ہیلتھ انشورنس میں سود کا عنصر نہ مانا جائے (بایں طو رکہ کلائنٹ نے نقدجمع کروایا اور اسے بدلے میں نقد نہیں ملا بلکہ خدمات یا دوا ملی اور رقم کا رقم سے تبادلہ نہ پایا گیا)اور غرر وجہالت سے ایسے ہی صرفِ نظر کیا جائے جیسے عقدِصیانہ میں کیا جاتاہے توپھر جواب عدم ِجواز کا نہ ہوگا۔
عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح الوقایہ (1/302) میں ہے:
شرع في الاجارة علی المعاصي وهی علی ثلثة وجوه…احدهالايذكر المحرم لا في العقد ولا في الشرط بل يامر به المستاجر…… وثانيها لا يكون المحرم في العقد ويكون في الشرط ذكرا او عرفا ولايكون المشروط او المعروف عين المعصية بل وسيلة اليه ومتعلق بها كمن استاجر اجيرا وهو يعلم انه يحمل عليه الخمر ويامره بعمارة الكنيسة او لايقاد ناره وضرب الناقوس او يرسله القتال المسلمين او يجعله قاضيا علی الظلم واجراء القوانين التي ليس في كتاب الله والحكم بلزوم الربوا والعقود الفاسدة ونحوها وكل ذلك هو يعلم عرفا او شرطا فقال ابوحنيفةرحمه الله تعالی الفعل حرام والاثم لازم والترك واجب والاجر ثابت بحكم العقد وقال صاحباه بعدم الاجر فانه نظر الی مقتضی الاجارة وإلى ان الشرط نفسها ليس بمعصية بل المعصية بفعله فان نفس القضاء والملازمة العسكرية وحمل الخمر ونحوه ليس بحرام من كل وجه بل له جانب وتاويل آخر، انما الاثم بفعله وجعله للحرام فيثبت به الاجر ولو كان السبب حراما……
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved