• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

انٹرنیٹ اور کیبل کے مشترکہ آلات کی تجارت      

استفتاء

میرا ایک دوست انٹرنیٹ  اور کیبل کے کنیکشن، ان کی تصحیح اور ان کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔

  1. اس قسم کے کاروبار کے بارے میں کیا حکم ہے؟
  2. نیز اس کاروبار کے لیے میرا اس کو سہولت فراہم کرنا کیسا ہے؟
  3. اور اس کاروبا میں اپنا پیسہ اور وقت لگانا کیسا ہے؟ مثلاً اس کاروبار  کے لیے اور متعلقہ  اشیاء کسی سے خرید کر اپنا منافع رکھ کر اس کو فروخت کرنا۔

آلات درج ذیل ہیں:

انٹرنیٹ والا Modem،  جو کہ انٹرنیٹ کے سگنل مہیا کرتا ہے۔

  1. انٹرنیٹ اور کیبل کی آپشن والا Modemجو کہ انٹرنیٹ کے سگنل اور کیبل دونوں کے چینلز مہیا کرتا ہے۔
  2. انٹرنیٹ کی تار
  • انٹرنیٹ اور کیبل کی مشترکہ تار
  1. اس قسم کی نوعیت کی چند دیگر اشیاء

نوٹ: واضح رہے کے انٹرنیٹ اور کیبل کے درست یا غلط استعمال کا تعلق میرے یا دوست کی ذات کے ساتھ کسی بھی طرح نہیں ہے، بلکہ ان سہولیات کو استعمال کرنے  اور خریدنے والے کے ساتھ ہے۔ میرا کام محض اشیاء خرید کر وارنٹی کی  شرائط و ضوابط کے ساتھ فروخت  کرنا ہے۔

وضاحت: انٹرنیٹ اور کیبل کا آج کے تناظر میں درست استعمال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں اشیاء دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت اور علم و عمل میں بھی  مددگار بھی ہوتی ہیں اور روز مرہ زندگی کے کام میں بھی معاونت فراہم کرتی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1) سوال میں مذکورہ آلات کی تجارت کرنا جائز ہے کیونکہ مذکورہ آلات میں چند چیزیں تو خاص انٹر نیٹ سے متعلق ہیں جبکہ انٹر نیٹ بذات خود کوئی برائی کی چیز نہیں ہے اس کے بہت سے جائز فوائد بھی ہیں،  بلکہ یہ استعمال کرنے والے پر ہے کہ وہ اسے کیسے استعمال کرتا ہے   اس لیے ان کا بیچنا جائز ہے ۔اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو کیبل کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہیں اور کیبل کو عام طور پر استعمال ناجائز ہی ہوتا ہے لیکن چونکہ یہ چیزیں ایسی نہیں ہیں جو صرف کیبل کے لیے ہی استعمال ہو سکتی ہوں بلکہ انٹر نیٹ کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہیں جس کے بارے میں پہلے گذر چکا کہ انٹر نیٹ بذات خود کوئی برائی کی چیز نہیں لہذا مذکورہ اشیاء  بھی متمحض للمعصیۃ نہیں ، لہذا ان اشیاء کا بیچنا بھی جائز ہے البتہ چونکہ ان اشیاء کو گناہ کے کام میں استعمال کرنے کے لیے خریدار کو  مزید کوئی صنعت نہیں کرنی پڑتی اس لیے   جس صورت میں بیچنے والے کو  معلوم ہوجائے کہ کوئی خاص خریدار اس کو گناہ کے کام میں ہی استعمال کرے گا تو اس صورت میں بیچنا جائز نہیں ہے۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی ایسے شخص کو اسلحہ بیچنا کہ جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ یہ شخص اس کو گناہ کے کام میں استعمال کرے گا تو جائز ہے لیکن کسی کے بارے میں معلوم ہوجائے مثلا باغی لوگو ں کو بیچنا تو پھر  ناجائز ہے۔

نوٹ: مذکورہ حکم اس تفصیل کے مطابق ہے کہ یہ چیزیں یا تو صرف انٹرنیٹ کے لیے استعمال ہوتی ہیں یا کیبل اور انٹرنیٹ دونوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں جو چیزیں صرف کیبل کے لیے استعمال ہوتی ہیں، مذکورہ حکم ان کے متعلق نہیں ہے۔

2) چونکہ ان کا بیچنا جائز ہے اس لیے آپ کا سہولیات فراہم کرنا بھی جائز ہے۔

3) جائز ہے جیسا کہ پہلی صورت میں گذر چکا۔

الہدایہ شرح البدایہ(4/ 94) میں ہے:قال ويكره بيع السلاح في أيام الفتنة معناه ممن يعرف أنه من أهل الفتنة لأنه تسبيب إلى المعصية وقد بيناه في السير وإن كان لا يعرف أنه من أهل الفتنة لا بأس بذلك لأنه يحتمل أن لا يستعمله في الفتنة فلا يكره بالشككنز الدقائق (ص: 390) میں ہے:وكره بيع السّلاح من أهل الفتنة وإن لم يدر أنّه منهم لاشرح مختصر الطحاوي للجصاص (8/ 560) میں ہے:قال: (وكره بيع السلاح من أهل الفتنة، وفي عساكر الفتنة، ولا بأس ببيعه في الأمصار، وممن لا نعرفه من أهل الفتنة).وكل ذلك لأن في بيعه من أهل الفتنة معونة لهم عليها، كما يكره بيع السلاح من أهل الحرب. وأما بيعه في الأمصار: فلا بأس به؛ لأن أمرهم محمول على الجواز والصحة، كما أن من رأيناه من أهل المصر لا يجوز أن نظن به أنه من أهل الفتنة ما لم نتيقن

نوٹ: آپ نے دیگر اشیاء ذکر کی  ہیں    وہ مبہم ہیں ان کا  تفصیلی حکم تفصیل آنے کے بعد ہی دیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved