• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

انویسٹر کا متعین نفع لینا سود کے حکم میں ہے

استفتاء

مفتی صاحب ! ہم قابل استعمال سکریپ کاکام کرتے ہیں، ہمیں مال تجارت کبھی کبھی ملتا ہے اورکیش پر ملتا ہے ہمارے پاس بعض دفعہ اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ ہم وہ مال کیش پرلے سکیں۔ کیا ہم کسی انویسٹر سے پیسے لے کرمال لے سکتے ہیں اس شرط  پرکہ ہم اسے 5فیصد نفع فی پیس پر دیں گے اور اس سے لیے ہوئے پیسے 6یا 7اقساط میں واپس دیں گے۔

ہمارا معاہدہ ایسے ہوتا ہے کہ ہم انویسٹرکو بتاتے ہیں کہ ہمیں 3چیزیں مل رہی ہیں ۔3لاکھ  کیش پر۔ تم ہمیں پیسے دو کہ وہ چیزیں خرید لیں اورتمہیں فی چیز کے پیچھے 5ہزار نفع دیں گے اورپیسے 6یا 7قسطوں میں دیں گے  ۔

وضاحت مطلوب ہے : پانچ فیصد نفع  کا ہوگا یا راس المال کا ؟

جواب وضاحت:  بعض دفعہ تو ہمارا معاملہ یوں ہوتا ہے کہ مثلا اس سے ایک لاکھ لے رہے ہیں تو اسی وقت طے کرلیتے ہیں کہ لاکھ پر پانچ فیصد نفع کے حساب سے ایک لاکھ پانچ ہزار قسطوں پر دیں گے اور بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ مثلا اس سے 80 ہزار روپے لیے اور اس سے طے ہوا کہ لاٹ میں ہم آٹھ پیس لے رہے  ہیں تو فی پیس پر پانچ سو کے اعتبار سے 84 ہزار روپے نفع سمیت قسطوں میں  واپس کریں گے  یعنی  دونوں صورتو ں میں مال بیچ کر جو نفع ہو گا اس کا فیصد مراد نہیں ہے وہ صورت ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ اسکریپ کا سامان کوئی بکتا ہے اور کوئی نہیں بکتا کوئی جلدی بکتا ہے اور کوئی دیر سے بکتا ہے اس لیے حساب کرنا مشکل  ہوتا ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  سود  کی ہے اورناجائز ہے ، کیونکہ مذکورہ صورت میں انویسٹر سے جو پیسے لیے جاتے ہیں چونکہ ان کی واپسی بہرصورت لازمی ہوتی ہے، اس لیے ان کی حقیقت قرض کی ہے اورقرض پر انویسٹر کو کسی بھی نام یا فیصد سے نفع دیا جائے وہ سود ہے، لہذا مذکورہ صورت جائز نہیں،البتہ اس کی جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پہلے آپ انویسٹر کو بتا کراس کا وکیل بن کراس کےلیے وہ مال  اس کے پیسوں سے خریدیں اورجب مال آجائے تو انویسٹر خود یا اس کاکوئی نمائندہ اس  مال  پر قبضہ کرے اور پھر وہ  آپ کو اپنا نفع رکھ کرادھا ر(قسطوں ) پر بیچ دے تاہم اس صورت میں آپ دونوں فریق  پہلے سے اس بات کا ایک دوسرے کو پابند نہیں کرسکتے کہ بعد میں ہم آپس میں سودا کریں گے بلکہ دونوں فریق آزاد ہوں گے کہ چاہے تو خرید وفروخت کریں یا نہ کریں  اگرچہ عملا بعد میں آپس میں ہی خریدوفروخت کامعاملہ کریں۔

امداد الفتاوی(3/39)میں ہے:

سوال:  قدیم  ۳/ ۳۹-   عمرو نے زید سے کہا کہ تم مجھ کو یک صد روپیہ کا مال جفت پاپوش منگادو، میں تم سے صد کا منافع دے کر ادھار ایک ماہ کے واسطے خرید کر لوں گا، یا جس قدر مدت کے واسطے تم دوگے اسی حساب سے منافع دونگا، یعنی پانچ روپے یک صد روپیہ کا منافع ایک ماہ کے واسطے ہے، جب مال آجاوے گا اس وقت مدّت ادھار اور منافع کی معین ہوجاوے گی، اس کے جواب میں زید نے کہا کہ میں منگادوں گا ، مگر اطمینان کے واسطے بجائے یک صد کے دو صد کا رقعہ لکھاؤں گا تاکہ تم خلاف عہدی نہ کرو، عمرو نے منظور کیا؟

الجواب: اس میں دو مقام قابل جواب ہیں ، ایک یہ کہ زید وعمرو میں جو گفتگو ہوئی یہ وعدہ محضہ ہے، کسی کے ذمہّ بحکم عقد لازم نہیں ۔ اگر زید کے منگانے کے بعد بھی عمرو انکار کر دے تو زید کو مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں ، پس اگر عرف وعادت میں عمرو مجبور سمجھا جاتا ہو تو یہ معاملہ حرام ہے ورنہ حلال۔اسی طرح عمرو کو اور مثل عمرو  کے زید کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وعدہ بیع پر قائم رہنے کی صورت میں منافع کی مقدار میں تغیر وتبدیل کردیں یہ کوئی نہیں کہ سکتا کہہ ایک ماہ کے ادھار کی صورت میں پانچ روپے  سیکڑہ نفع کا ٹھہرا تھا ،باقی زیادہ لکھنا یہ بیع ہزل فی مقدار الثمن ہے ،اگر عمرکی بد عہدی کی صورت میں بھی زیادہ مقدار واقعی  ثمن سے زیادہ وصول نہ کرے تو جائز ہے ورنہ حرام ہے ،نیز زید پر واجب ہوگا کہ ورثہ کو اس کی اطلاع کردے تاکہ زید کے بعد وہ عمرو کو پریشان نہ کریں ۔(20 محرم 1330ھ)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved