استفتاء
(1)میں قرآن مجید پڑھ کر اپنے والدین کی روح کو ایصال ثواب کردیتا ہوں ۔کیا میرے لیے قرآن مجید پڑھنے کے ثواب میں کمی آئے گی؟
(2)ہم سجدہ اور رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلی کی تسبیحات کتنی تعداد میں پڑھ سکتے ہیں؟
(3)سورت فاتحہ کے بعد دوسری سورت پڑھنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہیے یا نہیں ؟
(4) سنت موکدہ اور سنت غیر موکدہ پڑھنے کا کیا طریقہ ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)آپ کے ثواب میں کمی نہیں آئے گی۔
شامی (4/12)میں ہے:
الاصل أن كل من اتي بعبادةما له جعل ثوابها لغيره.
قوله:( بعبادة ما ) أي سواء كانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة أو غير ذلك … الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء.
(2) رکوع اور سجدے میں تسبیحات کی کم سے کم مقدار یہ ہے کہ تین دفعہ پڑھے ،تین دفعہ سے کم پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے، درمیانی درجہ یہ ہے کہ پانچ دفعہ پڑھے اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ سات دفعہ پڑھے۔تین سے زیادہ جتنی بھی مقدار پڑھے جائز اور باعثِ زیادتی اجر و ثواب ہے، البتہ طاق عدد (۳ ،۵ ،۷ ،۹ وغیرہ) پر ختم کرے۔
ہندیہ (1/75)میں ہے:
(ثم إذا استوى قائماً كبر وسجد) . كذا في الهداية ويكبر في حالة الخرور ويقول في سجوده: سبحان ربي الأعلى ثلاثاً وذلك أدناه. كذا في المحيط. ويستحب أن يزيد على الثلاث في الركوع والسجود بعد أن يختم بالوتر. كذا في الهداية. فالأدنى فيهما ثلاث مرات، والأوسط خمس مرات، والأكمل سبع مرات. كذا في الزاد. وإن كان إماماً لايزيد على وجه يمل القوم. كذا في الهداية.
شامی (2/241)میں ہے:
ويسبح فيه) وأقله (ثلاثاً) فلو تركه أو نقصه كره تنزيهاً.
بحر الرائق (2/551)میں ہے:
لوترك التسبيحات أصلا أو نقص عن الثلاث فهو مكروه كراهة التنزيه لانها في مقابلة المستحب.…فالزيادة على الثلاث أفضل. ويستحب أن يختم على وتر خمس أو سبع أو تسع لحديث الصحيحين إن الله وتريحب الوتر.
(3) سورت فاتحہ کے بعد دوسری سورت ملانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنااگرچہ سنت نہیں لیکن پڑھنا بہتر ہے۔
شامی (2/235)میں ہے:
و…سمي…لا تسن بين الفاتحة والسورة مطلقا ولو سرية ،ولاتكره اتفاقا .
قوله: (ولا تكره اتفاقا) ولهذا صرح في الذخيرة والمجتبى بأنه إن سمى بين الفاتحة والسورة المقروءة سرا أو جهرا كان حسنا عند أبي حنيفة.
بحر الرائق (1/545)میں ہے:
فلا تسن التسمية بين الفاتحة والسورة مطلقا عندهما. وقال محمد: تسن إذا خافت لا إن جهر. وصحح في البدائع قولهما. والخلاف في الاستنان أما عدم الكراهة فمتفق عليه ولهذا صرح في الذخيرة والمجتبى بأنه إن سمى بين الفاتحة والسورة كان حسنا عند أبي حنيفة،سواء كانت تلك السورة مقروءة سرا أو جهرا.
(4)سنت مؤکدہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت ثناءسے شروع کرتے ہیں ،اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھ کر ساتھ میں کوئی سورت ملاتے ہیں ۔اگر سنت مؤکدہ چار رکعت ہوں تو پہلے قعدہ میں صرف تشہد (عبدہ ورسولہ)پڑھتے ہیں،پہلے قعدہ میں درود شریف اور دعا کا پڑھنا درست نہیں ۔اگر غلطی سے پڑھی جائے تو سجدہ سہو ہوگا ۔سنت مؤکدہ کی تیسری رکعت کی ابتدا سورہ فاتحہ سے ہوتی ہے ۔سنت غیر مؤکدہ بھی اسی طریقے سے پڑھتے ہیں البتہ چار رکعت سنت غیر مؤکدہ کے پہلے قعدہ میں تشہد کے بعد درود شریف اور دعا بھی پڑھتے ہیں اور تیسری رکعت کی ابتداء میں ثناء دوبارہ پڑھتے ہیں ۔
شامی (2/186)میں ہے:
وضم اقصرسورة…(في الاولين من الفرض) وهل يكره في الاخريين؟ المختار لا (و) في (جميع) ركعات (النفل) لان كل شفع منه صلاة (و) كل (الوتر) احتياطا
قوله:( احتياطا ) أي لما ظهرت آثار السنية فيه من أنه لا يؤذن له ولا يقام أعطيناه حكم السنة في حق القراءة احتياطا.
شامی (2/552)میں ہے:
(ولا يصلي على النبي ﷺ في القعدة الاولى في الاربع قبل الظهر والجمعة وبعدها) ولو صلى ناسيا فعليه السهو… (ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها) لانها لتاكدها أشبهت الفريضة (وفي البواقي من ذوات الاربع يصلي )على النبي صلي الله عليه وسلم (ويستفتح) ويتعوذ ولو نذرا، لان كل شفع صلاة.
© Copyright 2024, All Rights Reserved