• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اسی لیے نماز نہیں پڑھتا اور نہ پڑھو ں گا، میرے مرنے کے بعد میرا جنازہ نہ پڑھا جائے، اس نے اچھا کیا کہ کلمہ نہیں پڑھا

استفتاء

4 نومبر بروز جمعرات ایک بجے دو پہر میں****میں ظہر کی نماز کے لیے گیا۔ میں نے دیکھا کہ مسجد کے بڑے دروازے پر چند افراد کھڑے کچھ تکرار کررہے ہیں۔ میں مسجد کے دوسرے دروازے سے مسجد میں داخل ہوگیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ مسجد کے خادم**** نے مسجد کے بڑے دروازے پر کھڑے ہو کر مسجد کی دریاں جھاڑی تھیں جس سے گر دو غبار بالکل ساتھ ح**** کی دوکان کے اندر بھی گئی جس سے**** غصے سے بھرا ہوا مسجد کے دروازے پر کھڑا مولویوں کو سخت سست کہہ رہا تھا کہ ” میں اسی لیے نماز  نہیں پڑھتا اور نہ پڑھوں گا اور میں اپنے بچوں کو کہہ جاؤں گا کہ میرے مرنے کے بعد میرا نماز جنازہ نہ پڑھایا جائے”۔

ظہر کی نماز پڑھنے کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد میں اپنے کچھ معمولات سے فارغ ہونے کے بعد **** کے پاس اس نیت سے گیا کہ اس سے معذرت کروں۔ چنانچہ میں نے حکیم سے کہا کہ ہمیں معاف کردیں۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ اس پر وہ تبلیغی جماعت والوں پر برسنے لگا۔ اس پر میں نے اسے کہا کہ کسی کی کمی کوتاہی کسی کے لیے جواز نہیں بن جاتی۔ ہمارا کام دعوت دینا ہے۔ مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے چچا کو آخری وقت میں دعوت دیتے ہوئے کہا کہ چچا کلمہ پڑھ لیں۔مگر چچا نے کلمہ نہیں پڑھا۔ اس پر**** نے غصے سے کہا کہ” اس نے اچھا کیا کہ کلمہ نہیں پڑھا”۔ نعوذ باللہ  من ذلک۔ میں تو یہ الفاظ سن کر حیران وپریشان چلا آیا۔ اس موقع پر ایک اور **** بھی موجود تھے مجھے نہیں پتہ کہ****کب وہاں سے اٹھے۔

تقریباً ساڑھے تین بجے میں اپنے کام سے فارغ ہو کر **** کے گھر کے سامنے سے گذرا۔ وہ کرسی پر بیٹھے کچھ کہہ رہے تھے، میں نے خیال کیا کہ شاید**** نے **** کا یہ کفریہ جملہ نہیں سنا تو صرف یاد دہانی کے لیے  میں نے کہا کیا **** آپ نے سنا کہ حکیم نے کیا کہا؟ اس پر  **** نے کہاکہ میں نے سنا میں نے سنا۔ غالباً  دوبار کہا پھر مجھ پر برس پڑے کہ تمہاری وجہ سے وہ اس حالت کو پہنچا۔ اور دوسری بات اس کے علاوہ کی کہ تم مسجد کے مدرس کو ( میں مسجد کا متولی بھی ہوں ) چھ چھ مہینے کی تنخواہیں دیتے ہو او ر مدرس کو سخت سست بھی کہا۔ حکیم کے اس کفریہ کلمہ کا ذکر بھی نہیں کیا کہ اس نے کیا  بکواس کی۔

میں****مسجد کا خزانچی بھی ہوں۔ میں ہی چندہ وغیرہ اکٹھا کرتاہوں اور میں ہی ماہوار تنخواہیں وغیرہ دیتا ہوں۔ کسی وجہ سے مدرس صاحب کی چھ مہینے کی تنخواہیں اکٹھی ادا کی تھیں۔ **** اس کے خلاف تھا۔ **** نے مجھے طعنہ دیا کہ  تم تو ایسے جس نے چھ ماہ کی تنخواہیں ادا کی ہیں۔

ان تمام ایام میں وہ مدرس صاحب پڑھاتے بھی رہے تھے کس قدر شرم کی بات ہے کہ مدرس کی تنخواہیں بے موقع یاد آگئیں اور ظالم بے ایمان حکیم کا کفریہ کلمہ یاد نہ آیا۔

ایک صاحب علم نے فرمایا کہ حکیم ****مرتد ہوگیا ہے۔****کے حکیم کی حمایت کرنے کی وجہ سے اس کا بھی ایمان گیا۔ اس کے ساتھ بیٹھنے والوں کا ایمان بھی خطرے میں ہے۔ متذکرہ بالا واقعہ کو مد نظر رکھتے ہوئےدرج ذیل  سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں:

1۔**** کے بارے میں کیا کیا جائے؟ اس سے علاج کروانا اور اس کے پاس بیٹھنا ٹھیک ہے؟۔

2۔**** کے ایمان کی کیا نوعیت ہے؟

3۔**** کے پاس بیٹھنے والے ساتھیوں اور اس کو کسی دینی کام کا سربراہ بنانے والوں کے ایمان کی کیا نوعیت ہے؟۔

الجواب

اگر واقعہ ایسے ہی ہے تو ****نے کفریہ الفاظ کہے ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ توبہ کریں اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح کریں۔ دریاں جھاڑنے پر ان کو غصہ تھا تو جھاڑنے والے پر اتارتے انہوں نے وہ اپنے ایمان و اسلام پر اتارا۔ عجیب بات ہے۔

**** کی کوئی ایسی بات نہیں ہے جو کفر  بنے۔ مزید کسی سوال کا جواب ضروری نہیں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved