• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اسلامی انشورنس یا تکافل

استفتاء

پاک قطر فیملی تکافل لمیٹڈ کے مذکورہ بلا  تکافل پلان اور متعلقہ ضمنی فوائد شریعت کے اصولوں کے مطابق ہیں یا نہیں؟ لہذا مذکورہ بالا تکافل پلان کی رکنیت حاصل  کرنا اور اس سے فوائد حاصل کرنا شرعاً جائز ہیں یا نہیں؟

الجواب

اس نظام میں درج ذیل خرابیاں ہیں:

۱۔ اسلامی انشورنس یا تکافل کی بنیاد اس نکتہ پر ہے کہ چندہ دہندگان کو جو کہ عام طور سے  کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں، طےشدہ حالت میں وقف فنڈ میں سے امداد دی جائے گی ور اگر کبھی کمپنی کو ختم کرنے کی ضرورت پیش آئی تو اس کا وقف فنڈ فقیروں کے لیے ہوگا۔ کمپنی کے وقف فنڈ میں یہ شرط کی جاتی ہے کہ اس فنڈ سے صرف وہ لوگ فائدہ اٹھا سکتےہیں جو اسے چندہ دیں گے۔ نقدی کے وقف میں اس طرح کی شرط لگانا درست نہیں کہ چندہ دینے والا طبقہ ہی اس سے فائدہ اٹھائے، کیونکہ انشورنس خواہ وہ اسلامی ہو اس میں چندہ دینے والا فقیر نہیں ہوتا۔ بلکہ عام طور پر غنی ہوتا ہے اگرچہ نچلے درجے کا ہو اور نقدی کا کچھ پتہ نہیں کہ کب تجارت میں خسارہ ہوجائے یا اثاثے کب کسی حادثے کی وجہ سے ضائع ہوجائیں۔ اس لیے نقدی کا وقف اختیار کردہ طریقے کے مطابق درست نہیں ہے۔ اس کے برخلاف غیر منقولہ جائیداد کے وقف میں کہ اس میں یہ شرط لگانا درست ہے کہ فلاں فلاں لوگ ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان کے ختم ہوجانے کے بعد مساکین پر وقف ہے۔

۲۔ جو شخص بھی اس وقف فنڈ کا ممبر بن کر چندہ دیتا ہے وہ اسی نسبت سے دیتا ہے کہ کل کو اگر میرانقصان ہوجائے تو یہ فنڈ میرے نقصان کی تلافی کرے گا۔ اگر زیادہ چندہ دوں گا تو زیادہ تلافی ہوگی اور کم چندہ دوں گا تو کم تلافی ہوگی۔ الفاظ کے اعتبار سے تو یہ چندہ دیا جارہا ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے ایک معاملہ کیا جارہا ہے ۔ اب چونکہ چندہ بھی روپوں میں ہوتا ہے اس لیے کمی بیشی کی صورت میں سود ہوجائے گا۔ نقصان کا ہونا بھی یقینی نہیں، اس لیے غیر یقینی ہونے کی وجہ سے قمار دھوکہ بھی پایا گیا۔ بعینہ یہی خرابیاں مروجہ انشورنس میں پائی جاتی ہیں۔

مذکورہ بالا خرابیوں کی وجہ سے تکافل کمپنی کی رکنیت حاصل کرنا اور فوائد حاصل کرنا درست نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved