• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اسلامی تکافل میں جمع کی ہوئی رقم پر زکوٰۃ کا مسئلہ

استفتاء

برائے مہربانی درج ذیل مسائل کا تفصیلی جواب دے کر بندہ کو تسلی فرمائیں۔

1۔ تکافل میں جمع کرائی گئی رقم پر زکوٰۃ کیسے ادا کی جائے؟ تکافل میں جو رقم سالانہ جمع کرائی جاتی ہے۔ وہ دو مصارف میں

تقسیم کر دی جاتی ہے۔ ایک تو تکافل کا وقف فنڈ ہوتا ہے جس میں سے تکافل کا کلیم وغیرہ ادا کیا جاتا ہے۔ اور دوسرا حصہ انویسٹمنٹ فنڈ میں چلا جاتا ہے جس میں سے انویسٹمنٹ کی جاتی ہے۔ یہ انویسٹمنٹ والی رقم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ بندہ کہ سالانلہ ادائیگی کا سلسلہ بھی بند ہو جاتا ہے۔ پھر جب بندہ کی تکافل پالیسی مکمل ہو جاتی ہے (جوکہ عموماً 20 سالے سے لے 30 سال کے درمیان ہوتی ہے) تو بندہ کو اس کی انویسٹمنٹ کی رقم کی اس وقت کی ویلیو یکمشت ادا کر دی جاتی ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا جب زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ہر سال نصاب کا حساب لگایا جائے تو کیا اصل جمع شدہ رقم کو گنا جائے یا پھر اس انویسٹمنٹ کی موجودہ (اس سال تک کی) ویلیو کو تکافل آپریٹر سے معلوم کر کے نصاب میں گنا جائے؟

2۔ مالی معاملات میں سرکاری قانون کے مطابق ہر جگہ ایک اندراج قریب رشتہ دار کا ہوتا ہے جسے اصطلاح میں ’’next of kin‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اندراج بنک اکاؤنٹ، تکافل، کمپنی ریکارڈ ز وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بندہ کی موت کے بعد اس کے مالی معاملات کو کون دیکھے گا؟ سوال یہ ہے کہ ’’next of kin‘‘  کی شرعی حیثیت کیاصرف انتظامی حد تک ہی محدود ہے؟ وہ اس رقم کا مالک تو نہیں بن جاتا نا؟ کیونکہ کہ میرے علم کے مطابق موت کے بعد ملکیت کا فیصلہ تو میراث کے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ وضاحت فرما دیں۔ جلد از جلد جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگرچہ ہم نہ انشورنس کو جائز سمجھتے ہیں اور نہ ہی تکافل کو،تاہم انشورنس اور تکافل کے طریقہ کار اور پالیسی میں اچھا خاصا فرق ہے، اس لیے ہم نے کہا تھا کہ اگر آپ تکافل فنڈ میں جمع کرائی گئی رقم کی موجودہ ویلیو پر زکوٰۃ کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں تو اس بارے میں آپ دار العلوم کراچی سے رابطہ فرمائیں۔

اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ویلیو پر زکوٰۃ کا مسئلہ صرف تکافل میں پیش آتا ہے کیونکہ دار العلوم کے حضرات تکافل کو جائز کہتے ہیں۔ ویلیو پر زکوٰۃ کا مسئلہ انشورنس میں پیش نہیں آتا، کیونکہ  انشورنس پالیسی میں اصل رقم پر ملنے والے منافع کو تقریباً سب ہی حضرات ناجائز اور حرام کہتے ہیں۔ اور حرام مال کل کا کل واجب التصدق ہوتا ہے۔ لہذا اس میں زکوٰۃ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ہم نے اپنے رسالے میں انشورنس پالیسی میں جمع کرائی گئی اصل رقم پر زکوٰۃ کا مسئلہ لکھا ہے، تکافل فنڈ میں جمع کرائی گئی رقم پر زکوٰۃ کا  مسئلہ نہیں لکھا۔ اور نہ ہی آپ کا سوال اصل رقم سے متعلق ہے۔ لہذا ہماری بات میں کچھ تضاد نہیں۔ شاید  آپ کے سمجھنے میں فرق لگا ہو۔

تاہم اگر آپ تکافل فنڈ میں جمع کرائی گئی رقم کی موجودہ ویلیو پر ہی زکوٰۃ کا مسئلہ پوچھنا چاہتے ہیں نہ کہ انشورنس سے متعلق، تو اس کاوہی جواب ہے جو ہم نے شروع میں دیا تھا یعنی کہ یہ مسئلہ آپ دار العلوم والوں سے پوچھیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved