- فتوی نمبر: 4-127
- تاریخ: 29 اگست 2011
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
بندہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں بطور اکاؤنئٹس مینجر کا م کرتا ہے۔ کمپنی نے آفس میں آنے جانے کے لیے اور ذاتی استعمال کے لیے گاڑی بمع پیٹرول، سی این جی اور مرمت خرچہ کی سہولت مہیا کی ہوئی تھی۔ اب کمپنی نے نئی پالیسی متعارف کروائی ہے جو کہ بدرجہ عہدہ ہے۔ بندہ کو 1000cc گاڑی کی اجازت ہے۔ پالیسی درج ذیل ہے:
۱۔ ملازم گاڑی خود خرید کرے گا اپنے ذاتی سرمائے سے
۲۔ کمپنی ہر ماہ علاوہ تنخواہ حامل گاڑی کو درج ذیل ادا کریگی
10400= 2000 + 8400 800cc
19200= 3000 + 16200 1000cc
26500= 4500 + 21000 1300cc
کمپنی کی شرائط کے مطابق ملازم کے لیے گاڑی لینا لازمی ہے ورنہ عہدہ کی تنزلی بھی ہوسکتی ہے۔ بندہ ذاتی طور پر گاڑی کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہے اس کے لیے ادھار لینے کی کوشش بھی رائیگاں گئی کہ لمبے عرصے اور اقساط کی صورت میں واپسی کے لیے کوئی رضا مند نہیں ہے۔
کیا بندہ موجودہ دور میں اسلامی بینک کی طرف سے پیش کردہ اقساط پر گاڑی لے سکتا ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اسلامی بینک عام طور سے جو کار فننانسنگ کرتے ہیں وہ لیز اور اجارہ کی شکل میں کرتے ہیں اور اس میں چونکہ گاڑی کی ملکیت بینک کی ہوتی ہے اس لیے بینک اس کی انشورنس ( تکافل ) بھی کرواتا ہے جس کی اگرچہ ایک اسلامی صورت نکالی گئی ہے لیکن ہمیں اس کے اسلامی ہونے پر اتفاق نہیں ہے۔
آپ بینک والوں سے بات کیجئے کہ وہ بجائے اجارے کے آپ کے ساتھ مرابحہ کا معاملہ کرے جس کی صورت یہ ہے کہ بینک آپ کو مطلوبہ گاڑی خرید کر آپ کے ہاتھ کچھ فیصدی نفع رکھ کر مثلاً دس فیصد نفع رکھ کر آپ کو قسطوں میں فروخت کر دے۔ اس صورت میں انشورنس کرانے نہ کرانے کا اختیار آپ کو ہوگا آپ وہ نہ کرایئے چوری کے خطرے سے بچنے کے لیے آپ سیکنڈ ہینڈ گاڑی لے سکتے ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved