• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اسقاط حمل کی وجوہات

استفتاء

’’سوال: وہ کونسے اعذار و وجوہات ہیں جن کی بنا پر اسقاط حمل جائز ہو جاتا ہے؟

جواب:حمل کے چار مہینے پورے ہونے سے پہلے پہلے بعض اعذار معتبر فی الشرع کے ہوتے ہوئے اسقاط حمل جائز ہے اور اعذار نہ ہونے کے وقت جائز نہیں اعذار معتبرہ جیسےظہور حمل کے بعد دودھ منقطع ہو جائے اور خاوند دائیہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو یا عورت پر شدید بیماری کا غلبہ ہو یا غیر عادی طریقہ ولادت پیش آتا ہو تاہم بعض اشد صورتوں میں جن میں ہلاکت یقینی ہو تو چار ماہ کے بعد بھی اسقاط حمل کی گنجائش ہے۔‘‘فتاوی حقانیہ(4/557)

مذکورہ بالا فتوے کے بارے میں آنجناب کی رائے جاننا مطلوب ہے بالخصوص یہ دو باتیں قابل تصدیق ہیں

1۔ چار ماہ کے بعد بھی کسی عُذر سے اسقاط حمل کی گنجائش ہے؟

2 اعذار میں سے غیر عادی طریقہ ولادت بھی معتبر ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1 ۔چار ماہ کے بعد اسقاط حمل کی گنجائش نہیں خواہ عذر کوئی بھی ہو کیونکہ چار ماہ بعد جنین (حمل) میں روح ڈال دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک زندہ انسان شمار ہوتا ہے اور ایک زندہ انسان کو تلف کر دینا کسی حال میں جائز نہیں خواہ اس کی وجہ سے دوسرے کی جان کو خطرہ ہوالبتہ جان جانے کے خطرے میں یہ کیا جاسکتا ہے کہ جنین (حمل) کی اقل مدت یعنی چھ ماہ گزرنے پر ڈیلیوری کرادی جائے یہ بھی تب ہے جب ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ کر لیا گیا ہو ۔

2۔ غیر عادی طریقہ سے مراداگر آپریشن ہے تو یہ بعض حالات میں عذر بن سکتا ہےمثلا پہلا بچہ آپریشن سے ہوا تھا اور ابھی تک سابقہ زخم پورے طور پر درست نہیں ہوئے تھے کہ دوسرا حمل ٹھہر گیایا پہلے ہی اتنےآپریشن ہوچکے ہیں کہ اب مزید آپریشن ممکن نہیں ۔ہرحال میں آپریشن سے ولادت ہونا عذر نہیں۔۔۔۔۔۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved