- فتوی نمبر: 10-112
- تاریخ: 01 جولائی 2017
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
بخدمت جناب حضرت مفتی صاحب مدظلہم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
استحقاق زکوٰۃ کے سلسلے میں مندرجہ ذیل صورتوں کے بارے میں رہنمائی فرمائی:
1۔ کیا قابل وصول اجرت اخذ زکوٰۃ سے مانع بنے گی؟
الف: پورا مہینہ گذر چکا ہے لیکن تنخواہ ملازم کو ابھی نہیں ملی بلکہ کمپنی کے ذمہ ملازم کا دین ہے، تو کیا یہ قابل وصول دین ملازم کے حق میں مانع اخذ زکوٰۃ بنے گا؟
ب: مہینہ مکمل نہیں ہوا بلکہ ایک دو ہفتہ گذرے ہیں تو ایسی صورت میں جتنے دن گذر گئے ان کی تنخواہ ملازم اپنے نصاب (نصاب خواہ ادائے زکوٰۃ کا ہو یا اخذ زکوٰۃ) میں محسوب کرے گا یا نہیں؟
2۔ بسا اوقات گھر کا بڑا یا کمانے والا شخص ہسپتال میں داخل ہوتا ہے تو علاج کے اخراجات کے لیے اس کی فیملی قرضے وغیرہ لے لیتی ہے، نیز اکثر اوقات اس کے متعلق مریض سے نہ پوچھا جاتا ہے نہ ہی اسے بتایا جاتا ہے۔ پھر جب مریض صحت یاب ہو جاتا ہے تو وہ گھر کا بڑا ہونے کی وجہ سے اس قرض کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔
الف: سوال یہ ہے کہ شرعاً کس پر واجب ہے؟
ب: اگر مریض کا انتقال ہو جائے تو یہ قرض کس کے ذمے شمار ہو گا؟
اگر مریض صحت یاب ہونے کے بعد اس قرض کو اپنی ذمہ داری قرار دے یا نہ دے، دونوں صورتوں میں یہ قرض کس کے ذمے میں شمار کیا جائے گا؟
3۔ لڑکے یا لڑکی کی شادی کے لیے جو سامان جہیز وغیرہ خریدا جاتا ہے جو فی الوقت تو استعمال میں نہیں ہوتا، لیکن عنقریب ہونے والی شادی کے بعد استعمال میں آجائے گا تو سوال یہ ہے کہ یہ سامان آج کی تاریخ میں نصاب زکوٰۃ کے معاملہ میں ضرورت سے زائد شمار کیا جائے گا یا نہیں؟ چاہے وہ والدین کی ملکیت ہو یا خود لڑکے یا لڑکی کی ملکیت ہو، دونوں صورتوں میں کیا حکم ہو گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ الف، ب: اجرت دین ضعیف ہے اس لیے یہ ادائے زکوٰۃ یا اخذ زکوٰۃ کے نصاب میں محسوب نہ ہوگی۔
رد المحتار: (3/341) میں ہے:
دفع إلى فقيرة لها مهر دين على زوجها يبلغ نصابا وهو موسر بحيث لو طلبت أعطاها لا يجوز وإن كان لا يعطي لو طلبت جاز. قال في البحر المراد من المهر ما تعورف تعجيله وإلا فهو دين مؤجل لا يمنع وهذا مقيد لعموم ما في الخانية ويكون عدم إعطائه بمنزلة إعساره ويفرق بينه وبين سائر الديون بأن رفع الزوج للقاضي مما لا ينبغي للمرأة بخلاف غيره لكن في البزازية إن موسرا والمعجل قدر النصاب لا يجوز عندهما وبه يفتى احتياطاً. وعند الإمام يجوز مطلقا اه قال السراج والخلاف مبني على أن المهر في الذمة ليس بنصاب عنده وعندهما نصاب اه نهر.
قلت ولعل وجه الأول كون دين المهر دينا ضعيفا لأنه ليس بدل مال ولهذا لا تجب زكاته حتى يقبض ويحول عليه حول جديد فهو قبل القبض لم ينعقد نصاباً في حق الوجوب فكذا في حق جواز الأخذ.
2۔ الف، ب: یہ قرض فیملی کے سربراہ کے ذمے بھی ہو سکتا ہے اور خود فیملی کے افراد کے ذمے بھی ہو سکتا ہے۔ تعیین شخصی حالات کو پیش نظر رکھ کر کی جا سکتی ہے۔ مثلاً بیوی اگر اپنے شوہر کے علاج کے لیے قرض لیتی ہے تو وہ عرفاً شوہر ہی کے ذمے سمجھا جاتا ہے، اس طرح کی اور بھی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
3۔ ادائے زکوٰۃ کے حوالے سے تو یہ سامان زکوٰۃ کے نصاب میں شمار نہ ہو گا کیونکہ یہ مال نامی نہیں ہے۔ البتہ اخذ زکوٰۃ کے حوالے سے یہ نصاب میں شمار ہو گا۔ نیز جس کی ملکیت میں یہ سامان ہو گا اسی کے حق میں یہ نصاب میں شمار ہو گا۔ عموماً لڑکی کی رخصتی سے پہلے یہ سامان والدین کی ملکیت ہوتا ہے اور رخصتی کے بعد لڑکی کی ملکیت ہوتا ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved