• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

“جا تینوں طلاق دتی”تین مرتبہ کہا

استفتاء

میں نے اپنی بیوی کو غصے میں یہ الفاط “جا تینوں طلاق دتی”تین مرتبہ کہے لیکن میرا  اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ نہیں تھا بیوی نے غصے میں میرے منہ سے نکلوایا تھا،لیکن اب ہم اس فیصلے پر نادم ہیں اور رجوع کرنا چاہتے ہیں ،ہمارے تین بچے ہیں لہذا کوئی حل بتائیں۔

تنقیح:میں غصے میں تھا لیکن مجھے معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں مجھے الفاط اچھی طرح یاد ہیں اور نہ ہی کوئی خلاف عادت فعل سرزد ہوا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔اور بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہےلہذا اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ ہی رجوع کی گنجائش ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں جب شوہر نے”جا تینوں طلاق دتی” تین مرتبہ  کہا تو یہ الفاظ چونکہ صریح ہیں اس ان سے بلا نیت طلاق واقع ہو جاتی ہے  اور یہ الفاط  اگرچہ شوہر نے غصے میں کہے تھے لیکن غصہ اس درجے کا نہیں تھا جو طلاق کے عدم وقوع کا سبب بنے کیونکہ شوہر کو معلوم تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہےاور شوہر نے چونکہ تین مرتبہ کہے   تھے اس لیے ان سے تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں ۔

بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:

‌وأما ‌الطلقات ‌الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

بدائع الصنائع(3/101) میں ہے:

أما ‌الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: ” أنت طالق ” أو ” أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة ” مشددا، سمي هذا النوع صريحا.

رد المحتار (3/ 244)ميں ہے:

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ‌ويعلم ‌ما ‌يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved