• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جعلی نوٹ

استفتاء

پی کمپنی اپنا مال ڈیلروں کو فروخت کرتی ہے پھر آگے عام گاہکوں کو وہ خود فروخت کرتے ہیں ریکوری والا شخص جب ڈیلروں سے رقوم اکٹھی کر کے لاتا ہے تو بعض اوقات کوئی جعلی نوٹ نکل آتا ہے۔ ایسی صورت میں ملازم اپنی جیب سے نقصان بھر دیتا ہے اور پی کمپنی سے نقصان وصول نہیں کرتا اگرچہ پی کمپنی سے رجوع کرنے کی صورت میں اسے اپنے پیسے مل سکتے ہیں۔ مذکورہ طریقہ کار کا شرعاً کیا حکم ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جعلی نوٹ نکلنے کی صورت میں ملازم کے اوپر اپنی جیب سے نقصان بھرنا لازم نہیں، البتہ اگر کوئی ملازم بخوشی اپنی جیب سے نقصان بھرتا ہے تاکہ مالکوں کی نظر میں اس کی ساکھ اچھی رہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔

(١)  قال تبارک و تعالیٰ: (البقرہ: ١٩٥)

واحسنوا انَّ الله یحِب المحسنین۔

(٢) الصحیح للبخاري: (ص ١٦٢، باب السهولة و السماحة فی الشراء و الَبیع)

رحم الله عبداً سمحًا إذا باع سمحًا إذَا اشتریٰ سمحًا إذا اقتضیٰ.

(٣) القواعدة الفقهیة و تطبیقاتها في المذاهب الأربعة: (1/472)

الخراج بالضمان

التوضيح: خراج الشيء: هو الغَلة التي تحصل من الشيء إذا كانت منفصلة عنه، وغير متولدة منه، ككسب العبد، وسكنى الدار، وأجرة الدابة، ومنافع الشيء.

والضمان: هو التزام بتعويض مالي عن ضرر للغير، و”الخراج بالضمان ” أي بمقابلة دخوله في ضمان من سلم له خراجه، هما لم يدخل في ضمانه لم يسلم له خراجه، وقد نهى رسول الله – صلى الله عليه وسلم – عن ربح ما لم يضمن، رواه الطبراني عن حكيم بن حزام رضي الله عنه؛ ورمز السيوطي إلى حسنه.

وهذه القاعدة نص حديث نبوي صحيح أخرجه الشافعي وأحمد وأصحاب السنن الأربعة وابن حبان من حديث عائشة رضي الله عنها، وفي بعض طرقه ذكر السبب.

وهو أن رجلاً ابتاع عبداً فأقام عنده (مدة) ما شاء الله أن يقيم، ثم وجد به عيباً، فخاصمه إلى النبي – صلى الله عليه وسلم – فردّه عليه، فقال الرجل: يا رسول الله، قد استعمل غلامي؟ فقال: "الخراج بالضمان "، لأنه لو كان تلف في يده، قبل الرد، لكان من ماله.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved