• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جب امانت کا مالک لا پتہ ہو جائے تو اس صورت میں امانت کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

میرے پاس ایک نامعلوم شخص نے کتابیں امانت کے طور پر رکھ دیں ہیں انہوں نے کہا کہ میں 4 ماہ بعد وصول کر لوں گا اسکو ایک سال ہونے والا ہے اس نے مجھ سے  نمبر بھی لیا تھا  لیکن ابھی تک اس نے کتا بیں وصول نہیں  کی ہیں اب اس امانت کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکو رہ صورت میں اصل حکم تو یہی ہے کہ اس شخص کو (یا  اس کی موت کی صورت میں اسکےورثاء کو )تلاش کر کے وہ کتابیں ان تک پہنچائیں لیکن اگر یہ بالکل ممکن نہ ہو تو ان کتابوں کو اسکی طرف سے صدقہ کر دیں لیکن اگر  بعد میں وہ شخص آگیا تو اسکو اختیار ہو گا چاہے تو اس صدقہ کو باقی رکھے اور چاہے تو آپ سے کتابیں یا اانکی قیمت واپس لے لے۔

امداد الاحکام(3/625)میں ہے:

سوال:ایک شخص کی امنت میرے پاس موجود ہے اور شخص کا کچھ پتہ نہیں میں نے اپنی رائے  میں اس امانت کی اہمیت کی نسبت سے کافی تحقیق اس شخص کی کی مگر نہ تو اسکا اور نہ اسکے ورثاء کا  کچھ پتہ ملا اب اس امانت کا کیا کروں اور اس بارے کس طرح سبکدوش ہوں انتظار کی بھی حد گزر گئی بظاہر کوئی صورت اس شخص کے پتہ ملنے کی معلوم نہیں ہوتی؟

جواب:اس صورت میں  اگر وہ مال و درہم کی مقدار سے کم ہے تب تو لقطہ کے حکم میں ہے اوراگر  زیادہ کا ہے تب تو بیت الما ل  کا حق ہے بشرطیکہ کئی برس تک اس امانت والے کی اور اسکے ورثاء کی کافی تحقیق ہو گئی ہو اور پتہ نہ ملا ہو اور آجکل مدارس اسلامیہ کا حکم مثل بیت المال کے ہے اور اگر سائل صدقہ کا مصرف ہو تو وہ خود بھی صرف کر سکتا ہے۔وفی الحاوی "غريب مات في بيت انسان ولم يعرف وارثه فتركته لقطة ما لم يكن كثيرا فلبيت المال بعد الفحص عن ورثته سنين فان لم يجدهم فله لو مصرفا”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved