• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جبری نکاح کی شرعی حیثیت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرےوالدصاحب نےمیرا رشتہ طےکردیاجس پر وہ پہلے سے ہی جانتے تھے کہ میں بالکل بھی راضی نہیں ہوں، میرے والد گرامی نے مجھ سے پوچھا کہ میں ساجد نامی  شخص سے تمہارا رشتہ طےکر رہا ہوں، میں نے صاف منع کردیاکہ زندگی میری ہے ،مجھے اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق اسلام نے دیا ہے لیکن میرے ابو قرآن پاک لے کر آ گئے کہ مان جاؤ، میں پاؤں میں گر پڑی، میں بالکل بھی اس شخص کو کسی طرح پسند نہیں کرتی، یہ ظلم مت کریں، لیکن انہوں نے کہاکہ یہ حق صرف والد کو حاصل ہے، اللہ کا حکم ہے، والد جہاں چاہے بیٹی کی شادی کر سکتا ہے، تمہاری ہاں کی ضرورت نہیں، میں روئی، چیخی، مجھے سوچنے کا وقت دیا جائے ،میں ہرگز نہیں کر سکتی، مگر میرے ابو نے کہا اگر آج تم ہاں نہیں کروگی میں تمہاری امی اور خود کو ختم کر دوں گا، اپنی خوشی پوری کرنا ۔میں نے بے بسی سے اور رورو کے کہا کہ جب اسلام مجھے حق ہی نہیں دیتا تو آپ کی مرضی،۔ان جملوں میں بھی میری تکلیف، فریاد تھی اور کچھ نہیں ،میں نے دن رات اللہ سے دعا کی کوئی سبب پیدا کردےاور اس شخص  سےنجات مل جائے،میں ایک وفادار اور تابع دار بیوی بننا چاہتی تھی مگر وہ تب ممکن تھا جب میں اپنی رضا سےکسی شخص کو اپناؤں مگر میں کسی طرح بھی خوش نہیں ،میں اچھی طرح جانتی تھی کہ میری اور اس کی سوچ میں بہت فرق ہے، وہ شکی شخص اور عورت کو کوئی اہمیت نہ دینے والاشخص ہے۔

میرا نکاح ہونے لگا تو مجھے نہیں معلوم خوشی ہے یا غم ؟ قاضی صاحب  نے مجھے صرف صرف سائن کرنے کو کہا میں نے کردیئے، یہ نہیں پوچھا گیا کہ اس لڑکے کے ساتھ نکاح قبول ہے یا نہیں  ،ہاں یہ کہا گیا آپ کا مہردو تولہ سونا ،میں نے جی کہا وہ بھی اچھی طرح یاد نہیں کہ میں نے سوچ کے بولا ؟ جب بول دیا تو خیال آیااور غصہ بھی مگر میں بہت اذیت میں تھی ،جب سائن کیے  تو مجھے نہیں معلوم میں نے کس کا تصور کرکے سائن کیے ،شادی کے بعد مجھے لگا میرا نکاح بھی شاید نہ ہواہو، میں تواس شخص کا تصور  نہیں کرسکتی تو اس کے لئے singشاید تصور کرکے نہیں کیے ہوں گے۔

میری شادی ہوگئی اس نےمجھ سے ہمبستری کی، میں بالکل بھی راضی نہ تھی مگراسےبالکل بھی میری فیلنگ کی فکر نہ تھی ،اس نے اپنی خواہش پوری کی ،مجھے ذرا بھی اس میں انٹرسٹ نہ تھی اور نہ ہی Satisfactionکا تصوربلکہ یوں لگا کہ قیامت آگئی ہو، زمین پھٹے میں دفن ہو جاؤں ،میں خود کو آگ لگا دوں ،اتنی اذیت کی حالت کہ میرے جسم کے جیسے کوئی ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہو، میں وہ لڑکی تھی جس نے کبھی کسی کا برا نہیں سوچا تھا مگر میں دل میں دھاڑیں مار مار کر فریاد  کر رہی تھی اور اس ساجد کو بد دعائیں دے رہی تھی کہ یا تو میں مر جاؤں یا پھر وہ شخص ،مگر وہ شخص مجھ پر برس پڑا اسے مجھ پر رحم نہیں آیا بالکل بھی اور مجھ سے لڑائی کرتا رہا، میری تکلیف کی ذرا بھی پروا نہیں کی، نہ میری Feelingکی، وہ سمجھتا ہے عورت کو کوئی حق نہیں، مرد کی ملکیت ہے ۔

پر نہ کسی نے میرا درد بھرا چہرہ دیکھانہ کسی نےمیری تکلیف سمجھی، جب میں اس کی بات نہیں مانتی تو وہ گھر کے ایک ایک بندے کے آگےمیری شکایات لگاتا، مجھے ہر ایک کے آگے ذلیل کرتا ، ہر کوئی  مجھے گناہگار کہتا، ذلیل کرتا تھا، میں نےماں کو ہزار بار کہا کہ میں خوش نہیں ،مجھے آزاد کراؤ مگر وہ کہتی کہ میں انہیں جینے نہیں دیتی ،ہزاروں لڑکیوں کی ناپسند کی شادیاں ہوتی ہیں مگر کیا وہ گزارہ نہیں کرتیں،میں نے ساجد سے کہا کہ میں نہیں رہنا چاہتی اس نے کہا کہ میں کچھ نہیں کر سکتا، اپنے والد سے کہو ،تمہیں اگر وہ کہیں تو میں دے دوں گا مگر وہ جانتا  تھا کہ میرے والد اس کے ساتھ ہی  ہیں ،وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔

میرے والد کہتے ہیں میری بیٹی میرے لئے داغ بنتی جا رہی ہے اور یہ اس شخص کا احسان ہےکہ اس نے میری بیٹی سے شادی کی ،میرے والد نے کہا کہ ساجد نے مجھے کہا اگر تم اپنی بیٹی سے میری شادی نہیں کراؤگے تو میں خود کو ختم کردوں گا، میں ایسے کیسا کرسکتا تھا،مگر میں آج بھی روتی ہوں، ان کو اس بات کی بالکل پروا نہیں مگر کسی بھی صورت اس شخص سے خوش نہیں، میں مرنا تو قبول کر سکتی ہوں مگر اس شخص کے ساتھ رہنا بالکل نہیں ،میں نے بہت کوشش کی مگر یہ بالکل ممکن نہیں، آج میں اتنی  اپنی زندگی سے تنگ ہوں اور سب لوگوں سے ،خود سے مایوس ہوں۔

میں اس جہنم سے نکلنا چاہتی ہوں ،خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کرنا چاہتی ہوں،کیونکہ میرے والدین کے لئے یہ بھی قابل قبول ہے اوراس ساجد شخص کے لئے میں اپنی زندگی ختم کردو ں، مر جاؤں مگر وہ مجھے طلاق نہیں دے گا، بہتر یہی ہے میں اس دنیا سے جان چھڑا لوں ۔

مگر کسی نے کہا کہ میں کورٹ سے خلع لے سکتی ہوں، میں کورٹ میں Divorce پٹ(داخل کرنا) کرناچاہتی ہوں،کیونکہ اگرمیرے والدین یا ساجد کو پتہ چلا تووہ خلع نہیں ہونے دیں گے، اس لیے میں چاہتی ہوں سمن اس وقت تک  نہ پہنچے جب تک کوٹ ڈگری مجھے نہیں دیتی۔

1۔ قاضی نے مجھ سے پوچھا نہیں کہ نکاح قبول ہے یا نہیں، میں نے صرف سائن کیے تو کیاایسے  میرا نکاح ہوا؟

2۔اور دوسرا سوال جیسے میری شادی صرف والدین کے خوف ،پریشر کی وجہ سے ہوئی توکیا یہ شادی جائزہوئی؟

3۔ کیا میری بھی طلاق ہو سکتی ہے ؟جب میری طلاق ہوجائے گی تب میں ساجد کو بتا دوں گی، کیا یہ شریعت کے مطابق جائز ہے؟

وضاحت مطلوب ہے :(1) شادی کو کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟

جواب وضاحت: شادی کو 8 سال ہو گئے ہیں۔

(2) زبان سے کبھی شادی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے؟

جواب وضاحت:زبان سے رضامندی کا اظہار کیا لیکن دل سے کبھی نہیں کیا۔

(3) شادی کی مبارکباد دینے والوں کو کیا جواب دیا؟

جواب وضاحت:اول تو کبھی کسی نے شادی کی مبارکباد دی ہی نہیں، کیونکہ گھر والے سب جانتے تھے کہ میں رضامند نہیں،اور ہمارے ہاں لڑکی کو مبارکباد دینے کا رواج بھی نہیں ہے۔دوسرا یہ کہ اگر کوئی پوچھے کہ آپ کی شادی ہو گئی تو میں صرف ہاں کہہ دیتی ہوں مگر دل میں کہتی ہوں شادی نہیں بربادی ہوئی آپ لوگوں کو کیا کہوں۔

مزید وضاحت:میں نے ایم اے کیا ہوا ہے، سکول میں ٹیچنگ کر رہی ہوں،  اور فی الحال ایم فل کر رہی ہو ں۔ میری سکول کی ملازمت پر بھی میرے میاں کو اعتراض ہے،وہ چاہتا ہے کہ میں نوکری چھوڑ دوں۔پہلے میاں کی زمینداری  تھی،اب انہوں نے پٹرول پمپ لگایا ہے، فی الحال انویسٹمنٹ کی ہے ابھی اتنی زیادہ انکم شروع نہیں ہوئی،مجھے ملازمت کی اتنی خاص مجبوری نہیں ہے لیکن چونکہ کہ میں نے پڑھا ہوا ہے تو ایسے بے فائدہ تو پڑھائی نہیں کی نا۔ میں جوائنٹ فیملی میں رہتی ہوں ساس سسر کے ساتھ۔  میاں شکی مزاج ہے۔

میں خاموش بھی بیٹھی ہوں تب بھی اسے اعتراض ہوتا ہے۔ ماں باپ نے اپنی عزت کی خاطر مجھے یہاں بیاہا ہے۔  شادی سے پہلے میرا جس جگہ ارادہ تھا اور والدین سے واضح کہا بھی تھا وہ جگہ اور تھی، ان کی برادری سے ہماری برادری میں رشتے آتے تو ہیں، جاتے نہیں ہیں ،اس لئے والدین نے مجھے وہاں نہیں بھیجا۔ میں یہاں سے آزاد ہوکر کہاں جاؤں گی؟ یہ سوچا نہیں ،شاید اسی جگہ چلی جاؤں جہاں پہلے سوچا تھا۔ اس کی شادی ہو چکی ہے تو وہاں میں شادی کروا لوں گی، سوکن بن جاؤں گی، اولاد فی الحال نہیں ہوئی،ڈاکٹر کو ایک آدھ دفعہ چیک کروایا تھا پھر مجھے بھی خاص دلچسپی نہیں رہی، جب رشتے میں دلچسپی نہیں تو اولاد میں کیا ہوتی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1:مذکورہ صورت میں قاضی کے سامنے زبان سے نکاح کو قبول نہ کرنے کے باوجود بھی آپ کا نکاح درست ہو گیا ہے، کیونکہ قاضی ولی کا وکیل یا پیغام رساں ہے اور ولی کے وکیل یا پیغام رساں کے سامنے خاموش رہنا بھی اجازت کی دلیل ہے اور اس کے علاوہ نکاح نامے پر دستخط کرنا بھی اجازت کی دلیل ہے۔

درمختار (4/155) میں ہے:

(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ (فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة (أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو الفضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره، فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن) .

درمختار (4/160) میں ہے:

(فإن استأذنها غيرالأقرب) كأجنبي أو ولي بعيد (فلا) عبرة لسكوتها.

و فى الشامية تحته:

(قوله كأجنبي) المراد به من ليس له ولاية فشمل الأب إذا كان كافرا أو عبدا أو مكاتبا لكن رسول الولي قائم مقامه فيكون سكوتها رضا عند استئذانه كما في الفتح والوكيل كذلك كما في البحر عن القنية.

2: مذکورہ صورت میں اولاً تو اکراہ ثابت ہی نہیں، اور اگر اکراہ ثابت بھی ہو جائے تب بھی نکاح درست ہے کیونکہ اکراہ کے ساتھ بھی توکیل نکاح درست ہو جاتی ہے۔

فتاوی شامی(4/427) میں ہے:

 وأما التوكيل بالنكاح فلم أر من صرح به والظاهر أنه لا يخالفهما في ذلك، لتصريحهم بأن الثلاث تصح مع الإكراه استحسانا. وقد ذكر الزيلعي في مسألة الطلاق أن الوقوع استحسان والقياس أن لا تصح الوكالة لأن الوكالة تبطل بالهزل فكذا مع الإكراه كالبيع وأمثاله. وجه الاستحسان أن الإكراه لا يمنع انعقاد البيع ولكن يوجب فساده، فكذا التوكيل ينعقد مع الإكراه والشروط الفاسدة لا تؤثر في الوكالة لكونها من الإسقاطات؛ فإذا لم تبطل فقد نفذ تصرف الوكيل اهـ فانظر إلا علة الاستحسان في الطلاق تجدها في النكاح فيكون حكمهما واحدا تأمل.

3۔: مذکورہ صورت میں شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالتی خلع درست نہیں کیونکہ مذکورہ صورت میں فسخ نکاح کی کوئی  شرعی بنیاد موجود نہیں ہے۔

بدائع الصنائع (3/229) میں ہے:

وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved