• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

وظیفہ کے بعد جادو کرنے والے کا چہرہ نظر آنا  اور رات کے وقت جھاڑو لگانے کا حکم

  • فتوی نمبر: 23-211
  • تاریخ: 02 مئی 2024

استفتاء

"اول و آخر درود شریف پانچ  (5)مرتبہ  اور تین ہزار (3000)مرتبہ  "یا جبار یا قہار” رات سونے سے پہلے پڑھے اور کسی سے بات کیے بغیر سو جائے تو خواب میں وہ جگہ جہاں جادو کا تعویذ رکھا گیا ہے اور اس آدمی کا چہرہ جس نے جادو کیا ہے نظر آجائےگا۔ چار(4) دن تک یہ عمل کرنا ہے”

1) کیا مذکورہ بالا  عمل صحیح ہے؟

2) رات کے وقت جھاڑو  لگانا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1) اس عمل میں کوئی خرابی نہیں ہے تا ہم اسے مسنون عمل سمجھنا درست نہیں ۔ نیز اس عمل کو صرف ایک قرینے کے درجہ میں لیا جائے گا ۔اس کی بنیاد پرحتمی طور سے کسی کو جادو کرنے والا نہ سمجھا جائے گا۔

2) جائز ہے۔

امدادالفتاوی جدید ، کتاب الحظر والاباحۃ ، باب :تعویذات و اعمال(طبع: زکریا بک ڈپو انڈیا، جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 529) میں ہے:

"سوال (۲۳۵۱) :  قدیم  ۴/ ۸۶-   زید قرآن شریف کی کوئی آیت پڑھ کر ایک برتن پردم کرتا ہے، ایک دوسرا شخص اس برتن کو پکڑلیتا ہے پھر برتن میں ایک قسم کی حرکت پیدا ہوتی ہے، اگر کسی ساحر نے اس پر سحر کیا ہے تو جہاں سحر ہے وہاں پر چلا جاتا ہے، اور ا گر کسی درخت پر کیا ہے تو درخت پر چڑھنا چاہتا ہے، اگر کسی کا مال چوری ہوا ہے تو جہاں مال ہے وہاں پر چلا جاتا ہے۔ یہ زید کا عمل جائز ہے یا ناجائز ہے۔ اگر حرام ہے تو کِس دلیل سے؟

الجواب: یہ عمل فی نفسہ جائز ہے، اب یہ دیکھنا چاہئے کہ کسی امر ناجائز کی طرف مفضی تو نہیں ہوتا، یا ہوتا ہے، اگر ہوتا ہے تو اس عارض کی وجہ سے لغیرہ ناجائز ہوجائے گا مثلاً اس عمل کے ذریعہ سے کسی شخص کو چور سمجھنا جو کہ خلاف ہے نص ولاتقف مالیس لک بہ علم کے کیونکہ علم سے مراد دلیل شرعی ہے اور ایسے اعمال دلیل شرعی نہیں ۔ اور اگر امر ناجائز کی طرف مفضی نہیں ہوتا تو پھر بالکل جائز ہے ۔ مثلاً اس امر کے ذریعہ سے مال مِل جانا یا سحر باطل ہوجانا۔ خلاصہ یہ کہ فی نفسہٖ جائز اور اگر مقدمہ حرام کا بن جائے تو ناجائز”عملیات وتعویذات اور اس کے شرعی احکام، باب نمبر ۹ (طبع:ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان،  صفحہ نمبر109)میں ہے:"مرتّب عرض کرتا ہے کہ ’’القول الجمیل‘‘ میں چور کا عمل لکھنے کے بعد یہ عبارت بھی لکھی ہے: جو شخص یہ عمل یا ایسا کوئی اور عمل کرکے چور پر مطلع ہو تو اس پر واجب ہے کہ اس کے چرانے میں یقین نہ کرے۔ اور ان کو بدنام نہ کرے بلکہ قرائن کی پیروی کرے کہ یہ عمل بھی قرائن کے درجے میں ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا: {وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ } اور نہ پیچھے پڑو اس چیز کے جس کا تجھ کو یقین نہیں۔ کان اور آنکھ اور دل ہر ایک سے سوال کیا جائے گا۔اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کے چور وغیرہ کے عملیات سے شاہ صاحبؒ کا مقصود یہ نہیں کہ جس کا نام نکل آیا واقعی وہ چور ہے۔ ایسا یقین کرنا جائز نہیں، البتہ یہ بھی ایک قرینہ ہے اس کو قرینہ سمجھ کر مزید تحقیق کی جائے”اغلاط العوام، شگون  اور فال کی اغلاط(طبع:ادارة المعارف كراچی، صفحہ نمبر104) میں ہے:"مسئلہ نمبر ۱۳:بعض عوام عصر كے بعد جهاڑو دینے كو برا سمجهتے ہیں۔ اس کی کوئی اصل نہیں۔”فتاوی محمودیہ،باب الاشتات (طبع:  جامعہ فاروقیہ کراچی، جلد نمبر 24صفحہ نمبر471)  میں ہے:"الجواب: پند نامہ” فقہ کی کتاب نہیں، نہ فقہی حیثیت سے اس میں ممانعت مذکور ہے، بلکہ بتانا یہ ہے کہ مکان صاف کرنے اور جھاڑو دینے کا وقت عرفاً دن ہے، رات نہیں، ہر کام اپنے وقت پر کرنا چاہیے، مگر یہ تعیین فقہی تعیین نہیں کہ اس کے خلاف کرنے سے آدمی گنہگار ہو”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved