• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑےہوکر کھانا کھانا جائز ہے؟      

استفتاء

دفتر کےکمرے میں نیچے کپڑا، دسترخوان بچھا کر جگہ نہیں بن پاتی۔ ہم سات بندے مل جل کر ایک میز کے ساتھ کھڑے ہوکر مجبورا ًدوپہر کا کھانا کھا لیتے ہیں ۔کیا اس طرح مجبوراً کھڑے ہو کر کھانا کھا لینا گناہ میں تو نہیں آئے گا؟

وضاحت مطلوب ہے: کیا آفس میں کرسی میز پر بیٹھ کر کھانا ممکن ہے؟

جواب وضاحت:ہم سات بندے اگر ایک ایک ( علیحدہ علیحدہ ) بیٹھ کر کھانا چاہیں تو بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں اپنے اپنے میز کرسی پر۔مگر مل جل کر بیٹھ کر کھانا کھانا بہت  مشکل ہے اس وجہ سے مجبورا میز کے ارد گرد مل جل کر کھڑے ہو کر ہم سات بندے کھانا کھاتے ہیں اس طرح کرنے سے سب کا سالن بھی شئیر ہو جاتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کھڑے ہوکر کھانا کھانا درست نہیں۔اگر سات بندے ایک وقت میں بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے تو باری باری کھا لیں یا کم ازکم میز کے ساتھ کرسی لگا لیں اور اس پر بیٹھ کر کھا لیں۔

لمعات شرح مشكاة  (7/ 312)میں ہے:

قوله: (كنا نأكل على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ونحن نمشي ونشرب ونحن قيام) الأكل في حال المشي والشرب في حال القيام جائزان، ولكن المختار أنهما خلاف الأدب، والأولى أن لا يأكل ماشيا ولا راكبا ولا يشرب قائما، أي: لا يعتادهما.

شرح النووي على مسلم (رقم الحدیث2025 (میں ہے:

 نهى عن الشرب قائما قال قتادة قلنا فالأكل قال أشر أو أخبث……………وليس فى هذه الأحاديث بحمد الله تعالى اشكال ولافيها ضعف بل كلها صحيحة والصواب فيها أن النهى فيها محمول على كراهة التنزيه وأما شربه صلى الله عليه و سلم قائما فبيان للجواز فلا اشكال ولاتعارض وهذا الذى ذكرناه يتعين المصير إليه.

فہم حدیث(3/346)میں ہے:

فائدہ:کھڑے ہو کر پینے سے ممانعت تو اوپر کی حدیثوں سے معلوم ہوئی۔ ایسے ہی چونکہ نبی ﷺ سے عام طور پر کھڑے ہو کر کچھ کھانا یا کبھی ایک وقت بھی کھڑے ہو کر باقاعدہ کھانا کھانا منقول نہیں لہٰذا پینے پر قیاس کر کے کھڑے ہو کر کھانا کھانا بھی منع ہوگا۔ علاوہ ازیں اس میں کافروں اور فاسقوں کے ساتھ تشبہ بھی ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔البتہ کوئی چھوٹی موٹی چیز جیسے پان یا سونف یا ٹافی چلتے پھرتے یا کھڑے کھڑے منہ میں ڈال لی تو اس کی گنجائش ہے۔

آپ کے مسائل اور انکا حل(7/175)میں ہے:

س:آج کل یہ رواج عام ہوتا جارہا ہے کہ دعوتوں میں کھڑے ہوکر کھانا کھلایا جاتا ہے، جسے “بوفے” کا نام دیا گیا ہے، اگر کوئی شخص کھڑے ہو کرکھانا نہ کھائے تو اسے بُرا سمجھا جاتا ہے۔ کیا کھڑے ہوکر کھانا کھانا دُرست ہے؟ واضح رہے کہ وہاں بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی، جواب مفصل عنایت فرمائیں۔

ج:شرعاً کھڑے ہوکر کھانا مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ باقی رہا صاحب بہادروں کا ایسا نہ کرنے کو بُرا سمجھنا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے آج کے “مہذّب” لوگوں کو اسی طرح کھاتے دیکھا ہے، خدانخواستہ کل کلاں جانوروں کی طرح منہ سے کھانے کا رواج چل نکلا تو مجھے اندیشہ ہے کہ ہاتھوں سے کھانے کو “غیرمہذّب” فعل سمجھا جائے گا۔ رہا یہ کہ وہاں بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی تو ایسی دعوت کا کھانا ہی کیا ضروری ہے جہاں بیٹھنے کی جگہ نہ ملے؟ اگر میزبان بیٹھنے کی جگہ مہیا کرنے سے قاصر ہے تو کھانا گھر آکر کھالیجئے۔

فتویٰ،دارالافتاء، دارالعلوم دیوبندانڈیاویب سائٹ میں ہے:

سوال:کیا ایسی کوئی حدیث ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ کھڑے ہو کر پانی پینے یا کھانا کھانے پر الٹی کردو؟ کھڑے ہوکر کھاناپینا کتنا غلط ہے؟ اگر کبھی کبھار مجبورا یا عادتا ایسا کرلیتا ہے تو کیا معاملہ ہوگا؟ کتنا گناہ ہوگا؟

جواب:مسلم شریف کی حدیث ہے: لا یشربنّ أحد منکم قائمًا فمن نسي فلیستق (ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص ہرگز کھڑے ہوکر نہ پئے، اور جو شخص بھول جائے تو اس کو الٹی کردینی چاہیے) کھڑے ہوکر کھانا پینا خلاف سنت اور مکروہ ہے، شرعی مجبوری کی حالت مستثنیٰ ہے، اور بغیر عذر شرعی کھڑے ہوکر کھانے پینے کی عادت بنالینا تو نہایت برا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved