• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جہیز کے سامان اور مہر کے زیور پر کس کا حق ہے ؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام دریں مسئلہ کہ آج سے تقریبا دو سال قبل ایک عقد نکاح ہوا  ۔اس عقد میں بچی کے والدین نے بطور تحفہ بچی کو فرنیچر  ، برتن وغیرہ گفٹ کیے جبکہ لڑکے والوں نے بعوض حق مہر بچی کو زیورات دیے  ۔سال ڈیڑھ سال بعد میاں بیوی کے درمیان کبھی کبھی معمولی باتوں پر اختلاف ہوتا رہتا تھا  ،شو مئی قسمت یہ اختلاف شدت کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ میاں دھمکی دیتا کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا یہ جملہ میاں نے اتنی بار کہا کہ اس کا شمار نہیں دو مرتبہ میاں صراحتا کہہ چکا  ہےکہ  "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ” دوران جھگڑا میاں نے صاف لفظوں میں کہا کہ "تو میری طرف سے فارغ ہے ” گھر چلی جا ۔ میں تمہیں کاغذ بھیج دوں گا ۔

شریعت مطہرہ کی روشنی میں تین سوالوں کا جواب مطلوب ہے  :

1۔لڑکی کو بطور تحفہ والدین نے جو فرنیچر سامان وغیرہ دیا  ،اس سامان میں کیا سسرال والوں کا حق ہے یا یہ سامان بچی کا حق ہے ؟

2۔  بعوض حق مہر لڑکی کو جو زیورات دیے گئے تھے اس میں سسرال والوں کو کوئی حق ہے یا یہ زیورات اس بچی کا حق ہیں ؟

3۔جو شخص اتنی مرتبہ طلاق دے چکا ہے اور کوئی رجوع بھی نہیں کیا ۔کیا نکاح باقی ہے یا طلاق مغلظہ واقع ہو گئی ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔یہ سامان بچی کا حق ہے اس میں سسرال والوں کا کوئی حق نہیں ۔

2۔جو زیورات بطور حق مہر  کے دیے گئے تھے وہ بچی کا حق ہیں ان میں سسرال والوں کا کوئی حق نہیں ۔

3۔اس کا جواب اس پر موقوف ہے  کہ شوہر نے یہ الفاظ کہ ” تو میری طرف سے فارغ ہے "کب کہےیعنی ” طلاق دیتا ہوں ” کے الفاظ سے پہلےکہے یا بعد میں  ؟ اور بہر دو صورت کتنا پہلے کہے اور کتنا بعد میں  ؟

1۔شامی (3/ 585) میں ہے :

«فإن ‌كل ‌أحد ‌يعلم أن الجهاز ملك المرأة وأنه إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها ولا يختص بشيء منه وإنما المعروف أنه يزيد في المهر لتأتي بجهاز كثير ليزين به بيته وينتفع به بإذنها ويرثه هو وأولاده إذا ماتت، كما يزيد في مهر الغنية لأجل ذلك لا ليكون الجهاز كله أو بعضه ملكا له ولا ليملك الانتفاع به»

 2۔أحكام القرآن للجصاص (2/ 73)میں ہے:

«{وآتوا النساء صدقاتهن نحلة فإن طبن لكم عن شيء منه نفسا فكلوه هنيئا مريئا}»

فتضمنت الآية معاني: منها أن المهر لها وهي المستحقة له لا حق للولي فيه. ومنها أن على الزوج أن يعطيها بطيبة من نفسه

شامی     (4/ 61) میں ہے  :

«إذ ‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي»

فتاوی دارالعلوم دیوبند( عزیز الفتاوی)(1/445) میں ہے  :

وہ سامان جو عورت کو جہیز  میں والدین کے گھر سے ملا تھا اور  خاوند کے گھر بھیجا گیا ۔موافق رسم عادت کے وہ ملک عورت کی ہے ۔شوہر کا اس میں کوئی حق نہیں۔

خیر الفتاوی (4/555) میں ہے :

(مہر) لڑکی کا حق ہے۔وارث کو مہر کے تملک کا حق نہیں ۔مہر لڑکی ہی کو ملنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved