• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جیل میں نماز پڑھنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی مجاہد قید ہوجائے تو جیل میں  اس کی اپنی حالت کا اعتبار کر کے نماز پوری یا قصر  پڑھنی ہوگی  یااپنے امیر کے  تابع ہوکر نماز پوری یا قصر  پڑھنی  ہوگی یعنی اگر امیر  مقیم ہے تو اس قیدی مجاہد نے  نماز پوری پڑھنی ہے ورنہ قصر کریگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قیدی آدمی قید ہونے کے بعد نہ اپنے امیر کے تابع ہوگا اور نہ اس کی اپنی حالت کا اعتبار ہوگا بلکہ یہ  جیل کے عملے کے تابع ہوگا  پس اول تو وہ سفر اور اقامت کے بارے  میں جیل کے عملے سے معلومات لے کر عمل کرے اور اگر وہ معلومات نہ دیں یا ان سے معلومات دینے کی امید نہ ہو تو   استصحاب حال پر عمل کرے گا یعنی اگر وہ قید ہونے سے پہلے مقیم تھا تو جب تک سفر شرعی کا تحقق نہ ہو اس وقت تک وہ اقامت والی نماز پڑھے گا اور اگر قید ہونے سے پہلے ہی مسافر تھا یا قید ہونے کے بعد سفر شرعی کا تحقق ہوگیا تو جب تک یقینی طور پر اقامت کا تحقق نہ ہوگا  اس وقت تک وہ قصر نماز پڑھے گا۔

المحیط البرہانی(2/395) میں ہے:

قال في «السير الكبير» : والأسرى من المسلمين في أيدي أهل الحرب هم له قاهرون إن أقاموا به في موضع يريدون أن يقيموا به خمسة عشر يوماً فعليه أن يكمل الصلاة وإن كان الأسير لا يريد أن يقيم معهم، وإن كان الأسير يريد أن يقيم في موضع خمسة عشر يوماً وأخرجوه من ذلك الموضع يريدون مسيرة ثلاثة أيام قصر الصلاة لأن الأسير مقهور مغلوب في أيديهم، وكان سفره وإقامته بهم، كالعبد مع مولاه والقائد مع الأعمى والتلميذ مع الأستاذ.

شامی(2/ 617) میں ہے:

«(قوله ‌وأسير) ذكر في المنتقى أن المسلم إذا أسره العدو إن كان مقصده ثلاثة أيام قصر وإن لم يعلم سأله فإن لم يخبره وكان العدو مقيما أتم وإن كان مسافرا قصر؛ وينبغي أن يكون هذا إذا تحقق أنه مسافر وإلا يكون كمن أخذه الظالم لا يقصر إلا بعد السفر ثلاثا وكذا ينبغي أن يكون حكم كل تابع يسأل متبوعه فإن أخبره عمل بخبره وإلا عمل بالأصل الذي كان عليه من إقامة وسفر حتى يتحقق خلافه»

تاتارخانیہ (2/12) میں ہے:

والأسیر من المسلمين في أيدي أهل الحرب هم له قاهرون إن أقاموا به في موضع يريدون أن يقيموا به خمسة عشر يوماً فعليه أن يكمل الصلاة وإن كان الأسير لا يريد أن يقيم معهم، وإن كان الأسير يريد أن يقيم في موضع خمسة عشر يوماً وأخرجوه من ذلك الموضع يريدون مسيرة ثلاثة أيام قصر الصلاة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved