- فتوی نمبر: 22-198
- تاریخ: 09 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
مفتی صاحب بالفرض ہم ایک عدد واشنگ مشین جو نقد قیمت میں تقریبا 9000 روپے کی ہے اور قسطوں پر وہ چیز ایک سال کے لئے ہم 12000 روپے کی دیتے ہیں ۔ اگر کوئی گاہک 3 ماہ بعد ہمارے پاس آ جاتا ہے کہ میں آپکا حساب یعنی ساری رقم یکمشت ادا کرنا چاہتا ہوں تو مکمل قیمت سے کچھ کم کر دو۔ کیا ہم اس طے شدہ رقم سے پیسے کم کر سکتے ہیں یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں گاہک کے جلدی قیمت ادا کرنے کی وجہ سے قیمت میں کمی جائز نہ ہو گی۔
توجیہ: عقد کی ابتدا میں اگرچہ ادھار ادائیگی کی وجہ سے مبیع کی قیمت زیادہ طے کی جا سکتی ہے لیکن بعد میں ثمن کی جلدی یا تاخیر سے ادائیگی کی وجہ سے قیمت میں کمی و بیشی جائز نہیں ہے۔تا ہم اگر گاہک قیمت میں کمی کے بغیر ساری رقم جلدی ادا کرنے پر تیار ہو اور آپ اپنی طرف سے کچھ کمی کر دیں تو یہ جائز ہے۔
فقہ البیوع، مبحث الخامس، باب الاول (جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 545) میں ہے:
“وان زیادة الثمن من اجل الاجل، وان كان جائزا عند بداية العقد، ولكن لا تجوز الزيادة عند التخلف فى الاداء، فانه ربا في معنى “اتقضى ام تربى؟” وذلك لان الاجل، وان كان منظورا عند تعيين الثمن في بداية العقد، ولكن لما تعين الثمن، فان كله مقابل للمبيع، وليس مقابلا للاجل، ولذلك لا يجوز “ضع و تعجل”۔۔۔ اما اذا زيد فى الثمن عند التخلف في الاداء، فهو مقابل للاجل مباشرة لاغير ، وهو الربا”
فقہ البیوع، مبحث الخامس، باب الاول، مسئلۃ “ضع و تعجل “(جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 546) میں ہے:
قال ابن قدامة رحمه الله تعالى : اذا كان عليه دين مؤجل ، فقال لغريمه : “ضع عني بعضه، واعجل لك بقيته، لم يجز۔ كرهه زيد بن ثابت، وابن عمر، والمقداد، وسعيد بن المسيب، وسالم، والحسن، وحماد، والحكم، والشافعي، ومالك، والثوري، وهشيم، وابن علية، واسحق، وابو حنيفة ۔۔۔۔ الخ
هذا اذا كان البيع مؤجلا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved