• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جماعت کروانے کےلیے اپنی نماز توڑنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے  میں کہ ایک حافظ صاحب بوقت نماز عشاء مسجد میں داخل ہوئے مسجد میں پہلے سے ایک آدمی موجود تھا حافظ صاحب نے یہ سمجھ کر فرضوں کی نیت باندھ لی کہ موجود آدمی نے فرض پڑھ لئے ہوں گے حالانکہ اس آدمی نے فرض نہیں پڑھےتھے اسی اثناء میں ایک اور آدمی مسجد میں  آتا ہے اور موجود آدمی سے پوچھتا ہے کہ جماعت ہو چکی ہے؟وہ کہتا ہے کہ نہیں ہوئی بلکہ ابھی ہوگی یاد رہے کہ اس مسجد میں کوئی مستقل امام نہیں ہے بلکہ مذکورہ حافظ صاحب حالت موجودگی میں نماز وغیرہ پڑھا دیا کرتے ہیں اب دریافت طلب (1)امر یہ ہے کہ وہ حافظ صاحب دو رکعت پر سلام پھیر کر نماز پڑھائیں یا اپنی نماز پوری کریں؟

(2)اوراگر وہ حافظ صاحب تیسری رکعت کی قرأت شروع کر چکے ہوں تو پھر کیا حکم ہوگا ؟قرآن و حدیث کی روشنی میں مذکورہ بالا مسئلہ کی وضاحت فرمائیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ دونوں صورتوں میں حافظ صاحب اپنی نماز پوری کریں گے کیونکہ بغیر عذر کے نماز توڑنا حرام ہے اور جماعت کھڑی ہونے کی صورت میں فقہاء نے نماز کے توڑنے کو جوجائز کہا ہے تو وہ اس صورت میں ہے کہ جب آدمی مسجد میں نماز پڑھ رہا ہو اور اسی مسجد میں امام فرض نماز کی جماعت شروع کردے کیونکہ اس میں جماعت سے مخالفت لازم آتی ہے يہی وجہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنے گھر میں نماز پڑھ رہا ہو اور مسجد میں جماعت کھڑی ہو جائے تو اس شخص کے لیے نماز توڑنا جائز نہیں اسی طرح اگر کوئی آدمی مسجد میں نماز پڑھ رہا ہو اور دوسری مسجد میں جماعت کھڑی ہو جائے تو اس کے لئے  بھی نماز توڑ کر دوسری مسجد میں جماعت کے ساتھ شریک ہونا جائزنہیں ہوتا، اگرچہ اس صورت میں جماعت کا ثواب حاصل کرنا  ہی مقصود ہو۔

فتاوی شامی(610ْْ/2) میں ہے:

قطع الصلاة يكون حراما ومباحا ومستحبا وواجبا  تتمة نقل عن خط صاحب البحر على

 هامشه أن القطع يكون حراما ومباحا ومستحبا وواجبا فالحرام لغير عذر۔

فتاوی شامی (608/)میں ہے:

قوله ( لا إقامة المؤذن الخ ) مرفوع عطفا على معنى قوله شرع في الفريضة في مصلاه فكأنه قال المراد بالإقامة الشروع في الفريضة في مصلاه لا إقامة المؤذن الخ  أي فلا يقطع إذا أقام المؤذن وإن لم يقيد الركعة بالسجدة بل يتمها ركعتين كما في غاية البيان وغيره وكذا لو أقيمت في المسجد وهو في البيت أو في مسجد آخر لا يقطع مطلقا بحر أي سواء قيد الركعة بسجدة أو لا وإن كان فيه إحراز ثواب الجماعة لأنه لا يوجد مخالفة الجماعة عيانا معراج أي بخلاف ما إذا كانا في مسجد واحد فإن في عدم قطعها مخالفة الجماعة عيانا وفيه إشارة إلى دفع ما أورده ط من أنهم صرحوا بطلب الجماعة في مسجد آخر إن فاتته فيما هو فيه وإن الجماعة واجبة ولم تقيد بمسجده وإن القطع للإكمال إكمال فلا يظهر الفرق ۔ وبيان الدفع أن الجماعة وإن كانت مطلوبة واجبة لكن عارض وجوبها حرمة القطع فسقط الوجوب وترجح القطع للإكمال إذا كان في عدم القطع مخالفة الجماعة عيانا لأن هذه المخالفة منهية أيضا فصار القطع أولى لذلك  أما إذا لم توجد المخالفة المذكورة يبقى الوجوب ساقطا بحرمة القطع لترجح الحاظر على المبيح وعدم ما يرجح جانب المبيح هذا ما ظهر لي ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved