• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جماعت کے دوران اسپیکر کی آواز بند ہو جانا

استفتاء

نماز میں دوسری منزل  پر امام کی اسپیکر میں  آواز بند ہو جائے  تو مقتدی اپنی بقیہ نماز شروع کرتے ہیں  اور بعد میں دوبارہ آواز  آجائے  تو کیا کرنا چاہیے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ : جو واقعہ  پیش آیا ہے وہ تفصیل سے لکھ کر بھیجیں۔

جواب وضاحت: عشاء  کی نماز  امام پڑھا رہا تھا   کچھ نمازی  نیچے کی منزل  میں اور کچھ  اوپر کی منزل میں  نماز پڑھ رہے تھے    اور دوسری رکعت  میں اچانک  لائٹ  بند ہو گئی   اور اوپر اسپیکر  کی آواز بند ہو گئی  تو نمازی حضرات  نے اپنی بقیہ رکعت پوری کرنا شروع  کر دی  اور نماز کے دوران  ہی دوبارہ اسپیکر  کی آواز آگئی ۔ اور دوبارہ جب اسپیکر کی آواز آئی تو    اوپر کی  منزل والے مقتدیوں نے کچھ افعال علیحدہ ہی  ادا کر لیے تھے یعنی  قراءت کے دوران اسپیکر بند ہوا اور  جب دوبارہ   اسپیکر  کی آواز آئی تو مقتدی سجدے میں تھے جبکہ  امام ابھی رکوع میں تھا۔اب پوچھنا یہ ہے کہ اب  وہ نیت  توڑ کر جماعت میں شریک ہوں یا پھر  جو رکعتیں جماعت سے ملی تھیں وہ  تو مل گئیں اور بقیہ وہ خود ادا کر رہے  تھے وہ وہی کرتے رہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  جب اوپر کی منزل والوں  کو امام کی آواز آنا بند ہو گئی  اور کسی اور  طریقے  سے بھی اسے امام کے انتقالات (رکوع ، سجدہ وغیرہ میں جانے ) کا علم نہ رہا تو  اوپر کی منزل  والوں کی نماز فاسد  ہوگئی  لہذا ایسی  صورت میں انہیں  ازسر نو  اپنی انفرادی  نماز شروع  کر دینی چاہیے پچھلی پر بنا   نہیں کر سکتے  تاہم اگر دوران نماز امام کی آواز آنا شروع ہو جائے تو اپنی انفرادی  نماز ختم کر کے جماعت کے ساتھ نماز شروع  کر دینی چاہیے۔

درالمختار مع ردالمحتار(339,340/2) میں ہے:

والصغرى ربط صلاة المؤتم بالإمام بشروط عشرة: نية المؤتم الاقتداء، واتحاد مكانهما وصلاتهماوصحة صلاة إمامه، وعدم محاذاة امرأة، وعدم تقدمه عليه بعقبه، وعلمه بانتقالاته وبحاله من إقامة وسفر، ومشاركته في الأركان

في الشامية: (قوله وعلمه بانتقالاته) أي بسماع أو رؤية للإمام أو لبعض المقتدين رحمتي وإن لم يتحد المكان (قوله وبحاله إلخ) أي علمه بحال إمامه من إقامة أو سفر قبل الفراغ أو بعده، وهذا فيما لو صلى الرباعية ركعتين في مصر أو قرية، فلو خارجها لا تفسد لأن الظاهر أنه مسافر فلا يحمل على السهو، وكذا لو أتم مطلقا، وسيأتي تمامه إن شاء الله تعالى في صلاة المسافر (قوله ومشاركته في الأركان) أي في أصل فعلها أعم من أن يأتي بها معه أو بعده لا قبله، إلا إذا أدركه إمامه فيها، فالأول ظاهر، والثاني كما لو ركع إمامه ورفع ثم ركع هو فيصح، والثالث عكسه فلا يصح إلا إذا ركع وبقي راكعا حتى أدركه إمامه، فيصح لوجود المتابعة التي هي حقيقة الاقتداء.

فتاویٰ ہندیہ (88/1) میں ہے:

‌ولو ‌قام ‌على ‌سطح ‌المسجد واقتدى بإمام في المسجد إن كان للسطح باب في المسجد ولا يشتبه عليه حال الإمام يصح الاقتداء وإن اشتبه عليه حال الإمام لا يصح. كذا في فتاوى قاضي خان.

منحۃ الخالق  شرح البحر الرائق(384/1) میں ہے:

في الخانية، ‌فإن ‌كان ‌الحائط ‌كبيرا وعليه باب مفتوح أو ثقب لو أراد الوصول إلى الإمام يمكنه ولا يشتبه عليه حال الإمام سماعا أو رؤية صح الاقتداء في قولهم. زاد في الخلاصة قوله جميعا وإن كان عليه باب مسدود أو ثقب صغير مثل البنجرة لو أراد الوصول إلى الإمام لا يمكنه لكن لا يشتبه عليه حال الإمام اختلفوا فيه ذكر شمس الأئمة الحلواني أن العبرة في هذا لاشتباه حال الإمام وعدمه لا للتمكن من الوصول إلى الإمام؛ لأن الاقتداء متابعة ومع الاشتباه لا يمكنه المتابعة اه.

ونحوه في الخلاصة والفيض قال في الخانية والذي يصحح هذا الاختيار ما روينا أن رسول الله  صلى الله عليه وسلم  كان يصلي في حجرة عائشة  رضي الله عنها  والناس يصلون بصلاته ونحن نعلم أنهم ما كانوا يتمكنون من الوصول إلى حجرة عائشة رضي الله تعالى عنها اه.

مسائل بہشتی زیور(184 /1) میں ہے:

مقتدی کو امام کے انتقالات کا مثل رکوع، قومے، سجدے، قعدے وغیرہ کا علم ہو خواہ امام کو دیکھ کر یا کسی مکبر (تکبیر کہنے والے) کی آواز سن کر یا کسی مقتدی کو دیکھ کر ۔ اگر مقتدی کو امام کے انتقالات کا علم نہ ہو خواہ کسی چیز کے حائل ہو جانے کے سبب سے یا اور کسی وجہ سے تو اقتداء صحیح نہ ہوگی اور اگر کوئی حائل مثل پردے یا دیوار وغیرہ کے ہو مگر امام کے انتقالات معلوم ہوتے ہوں اگرچہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ ہوں تو اقتداء درست ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved